src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> مالیگاؤں : 12 نومبر تشدد معاملے میں مستقیم ڈگنیٹی نے سیاہ لباس پہن کر احتجاج درج کرایا - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

پیر، 13 نومبر، 2023

مالیگاؤں : 12 نومبر تشدد معاملے میں مستقیم ڈگنیٹی نے سیاہ لباس پہن کر احتجاج درج کرایا

 












مالیگاؤں : 12 نومبر تشدد معاملے میں مستقیم ڈگنیٹی نے سیاہ لباس پہن کر احتجاج درج کرایا





سنہ 2021 بارہ نومبر کے روز رضا اکیڈمی و سنی تنظیموں کی جانب سے شان رسالت میں گستاخی کرنے والے سماج دشمن عناصر کے خلاف ایک بڑا احتجاج کیا گیا تھا۔



اس حوالے سے سماجوادی پارٹی کے لیڈر مستقیم ڈگنیٹی نے میڈیا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ 12 نومبر کے احتجاجی پروگرام کو ہم لوگوں نے حمایت دی تھی اور اسی طرح سے شہر کی دوسری سیاسی و سماجی تنظیموں نے بھی حمایت دی تھی۔ اس دن جمعہ کا دن ہونے کے سبب دوپہر ساڑھے تین بجے ہم سبھی لوگ حسین سیٹھ کمپاونڈ سے میمورنڈم دینے کے لیے روانہ ہوئے تھے اور ہمیں وہاں یہ کہا گیا تھا کہ پروگرام کے جو ذمہ داران ہیں ان کی پولیس انتظامیہ سے بات چیت ہوگئی ہے، پولیس کی جانب سے بھی خود کہا گیا کہ ہم سٹی پولیس اسٹیشن میں آئیں۔

 

اس کے بعد ہم لوگ شہیدوں کی یادگار کی طرف سے سٹی پولیس اسٹیشن  جانا چاہتے تھے لیکن جب ہم وہاں پہنچے تو اس وقت کے تحصیلدار راجپوت صاحب بابا صاحب امبیڈکر کے مجسمہ کے پاس موجود تھے لیکن ہم اشوک استمبھ کے پاس رک گئے کیوں کہ وہاں پولیس نے پہلے سے جالی لگا رکھی تھی تب میں نے سٹی پولیس اسٹیشن کے سید شہباز کو فون لگاکر کہا کہ یہاں جالی لگی ہوئی ہے اگر اس وقت وہاں جالی نہیں لگی ہوتی تو شاید ہم لوگ ڈائریکٹ سٹی پولیس اسٹیشن میں جاتے اور میمورنڈم دے دیتے لیکن پولیس وہاں پہلے سے کیوں بلائی گئی اور جالی کیوں لگائی گئی یہ بات میری سمجھ سے بالا تر ہے  کیونکہ دوسری طرف جب اتنا بڑا پروگرام منعقد کیا گیا تو اس لحاظ سے بس اسٹیںڈ اور اطراف کے حصے میں پولیس کو جس طرح کا انتظام کرنا چاہیے تھا وہاں پولیس کا ویسا بندوبست نہیں کیا گیا تھا اس وجہ سے ہم لوگ وہیں رک گئے۔ 


مستقیم بھائی نے مزید کہا کہ اس وقت میں وہاں خود گیا اور جب یہ دیکھا کہ جالی ہونے کے سبب شہر کا ایک نوجوان طبقہ وہیں بیٹھ گیا کیونکہ اس کے آگے جانے کا راستہ نہیں ہے۔ چونکہ ہم نے سبھی کو بول  رکھا تھا کہ سٹی پولیس اسٹیشن جانا ہے اگر ہم ڈائریکٹ سٹی پولیس اسٹیشن گئے ہوتے تب مجھے نہیں لگتا کہ وہاں پر پولیس اسٹیشن میں شرارت یا نالائقی کرپاتا  بھی لیکن جالی لگی ہونے کے سبب وہاں کچھ نوجوان رک گئے اور ان کی جانب سے زور زور سے نعرہ لگایا جانے لگا۔


 لیکن جب میں بابا صاحب امبیڈکر کے مجسمے تک پہنچا تو مجھے لگا کہ ان کو ابھی لانا مناسب نہیں ہوگا تب میں نے تحصیلدار صاحب سے کہا کہ آپ سٹی پولیس اسٹیشن جائیے ہم دوسرے راستے سے وہاں آتے ہیں۔ اس وقت کے شہر کے ایڈیشنل ایس پی چندرکانت کھانڈوی صاحب کو میں نے خود فون کیا اور کہا کہ یہاں جالی لگی ہونے کی وجہ سے کچھ ناراض نوجوان وہیں رک گئے ہیں تو ہم لوگ واپس جاکر آتے ہیں۔ یہ بات انھوں نے بھی مان لی۔


جب ہم لوگ واپس ہوئے تب بس اسٹینڈ کے اطراف بہت سے لوگ جمع تھے لیکن اس وقت ہمیں کوئی نالائقی یا شرارت کرتا ہوا نظر نہیں آیا اور ہم واپس حسین سیٹھ کمپاؤنڈ میں آگئے اور وہاں سے ٹووہیلر کے ذریعہ پولیس اسٹیشن جانے کی بات پر اتفاق کیا گیا مگر کچھ ہی دیر کے بعد یہ خبر آئی کہ کچھ لوگوں کی جانب سے پتھراؤ کیا گیا اور اس کے بعد کے حالات سے سبھی واقف ہیں۔ 


اس وقت انتظامیہ نے بھی میمورنڈم لینے سے انکار کردیا تھا لیکن ان سب حالات میں پولیس نے جس طرح سے کاروائی کی یہ مالیگاؤں شہر کے ماضی میں کبھی دیکھی نہیں گئی۔


مستقیم ڈگنیٹی نے مزید کہا کہ اس کے بعد ہم لوگ جیل میں رہے اور ہم نے دیکھا کہ سلاخوں کے پیچھے ایسے لوگوں کو بھی ڈالا گیا جو دو دن بھی جیل میں نہیں رہ سکتے تھے لیکن انھیں مہینوں تک وہاں رکھا گیا۔ اس دوران انھیں کیا کیا تکلیفیں در پیش آئی یہ میں خود جانتا ہوں کیونکہ میں بھی ان کے ہی ساتھ جیل میں تھا 

اس وقت سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ ایسے موقع پر جب شہر کے لیڈران کو ایک ساتھ اس معاملے پر آواز اٹھانا چاہیے تھی یا اپنا دبدبہ بتانا چاہیے تھا اس دوران یا تو جان بوجھ کر یا شہر کے لیڈران کو قانونی سمجھ نہ ہونے کی وجہ سے جو بیان بازیاں کی جارہی تھیں اس سے پولیس کو یہ لگا کہ اس شہر میں جو مسلمانوں کے نام پر جو لیڈر آگے آگے رہیں ہیں وہی مسلمانوں کے دشمن ہیں اور ہمارے یہاں مخبروں نے بڑی تعداد میں ایسے لوگوں کا نام بھی پولیس میں بتایا جن کی ذرہ برابر بھی کوئی غلطی نہیں تھی۔


اس وقت جو بیان بازیاں ہوئیں کہ وہاں پتھر تھے نہیں بلکہ لائے گئے تھے اور میرے پاس بہت ثبوت ہے کہ کن لوگوں نے یہ انجام دیا یہ ایسی بیان بازی تھی جنھیں عدالت میں بھی مدعا بنایا گیا کہ ان کے خود کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہاں پتھر پہلے سے تھے نہیں بلکہ لائے گئے تھے اس کا مطلب یہ اخذ کیا گیا تھا کہ یہ پورا معاملہ منصوبہ بند تھا۔ جس کی وجہ سے ہمارے اوپر دفعہ 120 لگائی گئی اور اسی وجہ سے ہم نے مہینوں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور ہم نے جیل میں کتنی تکلیفیں برداشت کیں یہ صرف جیل میں رہنے والے جانتے ہیں۔ 


اسی طرح ایک بیان یہ آیا کہ لوگ باہر سے آئے اور اس کا ثبوت بھی ہے لیکن درحقیقت ایسا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا لیکن اس میں یہ ہوا کہ جو لوگ پکڑے گئے وہی گنہگار ٹھہرائے گئے جبکہ ہم نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ تب جیل میں ہی رہتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ اس شہر میں آج اگر نہال صاحب ہوتے تو یہ معاملہ پیش نہیں آتا لیکن یہ بات کب تک کہی جائے گی تب ہی میں نے سوچا کہ آج شہر میں نہال صاحب جیسی لیڈرشپ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی وقت میرے ذہن میں ایک لفظ آیا کہ ہمارا سیاسی دبدبہ اب شہر میں نہیں بچا اور یہی سچ ہے۔ 


حالانکہ اسی وقت اورنگ آباد، پربھنی جیسے شہروں میں اس سے زیادہ واقعات پیش آئے لیکن ان لوگوں کی ضمانت ایک ماہ کے اندر عمل میں آئی۔ 


اس معاملے میں مالیگاؤں شہر واحد ایسا شہر تھا جس میں لوگوں کی ضمانت کے لیے 11 مہینے لگ گئے اور ابھی بھی کئی لوگوں کی ضمانت نہیں ہوئی ہے اور وہ عبوری ضمانت پر ہیں۔ 


جو لوگ کورٹ سے رجوع نہیں ہوئے تھے آج بھی انھیں ضمانت نہیں ملی ہے تو کہیں نہ کہیں آج بھی سب تکلیف اٹھارہے ہیں اور تاریخ پر جارہے ہیں اس کے علاوہ کئی لوگوں کو تڑی پار کی نوٹس دی جارہی ہے کئی لوگوں کو آج بھی ناسک سے ایل سی بی کی نوٹس دی جارہی ہے۔


انھوں نے یہ بھی کہا کہ 12 نومبر ایک سوال ہے اور ہم نے اس وقت یہی کہا تھا کہ قانونی طور پر ہم مقامی کورٹ تا ہائی کورٹ تک جو بھی لڑائی ضمانت کے لیے ہمیں لڑنی ہوگی ہم لڑیں گے اور ہم جتنی کوشش کرسکتے تھے وہ سب کی گئی۔


آج بھی ہم اس معاملے میں ملزم بنائے گئے لوگوں کی  کسی نہ کسی طور پر مدد کررہے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages