پولیس اور میونسپل انتظامیہ کا بلڈرز پر شکنجہ
وسئی ویرار میں جعلی دستاویزات سے 55 عمارتوں کی تعمیر کا معاملہ، مزید 7 بلڈرز پر ایف آئی آر... کئی بڑے چہرے بے نقاب ہونے کا امکان
ممبئی: وسئی ویرار میں بلڈروں کی جعلسازی آہستہ آہستہ منظر عام پر آرہی ہے۔ جعلی دستاویزات کی بنیاد پر یہاں سینکڑوں عمارتیں کھڑی کی گئی ہیں۔ پولیس اور میونسپل انتظامیہ نے ایسے بلڈروں کو تلاش کرکے ان پر شکنجہ کسنا شروع کردیا ہے۔ میونسپل کارپوریشن کی شکایت پر پولیس نے گزشتہ 2 دنوں میں مزید 5 بلڈرز کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ اس معاملے میں کئی معروف بلڈرز کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ میونسپل ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر کشور گوس نے تمام افسران کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے ڈویژن میں فرضی عمارتوں کی تحقیقات کریں۔ اس جعلسازی کا انکشاف ویرار پولس نے کیا ہے، لیکن میونسپل حکام سے لے کر بلڈرز تک اس میں پھنس گئے ہیں۔ میونسپل کارپوریشن اپنے دفاع میں کہہ رہی ہے کہ مکان خریدتے وقت لوگوں کو ٹاؤن پلاننگ ڈپارٹمنٹ سے معلومات لینی چاہیے تھیں۔ اس کے ساتھ ہی عوام کا کہنا ہے کہ جب ان غیر قانونی عمارتوں پر ہاؤس ٹیکس لگایا گیا تو میونسپل کارپوریشن نے دستاویزات کی جانچ کیوں نہیں کی۔ ڈویژنل افسر نے عمارت کا معائنہ کیوں نہیں کیا جب یہ تعمیر ہو رہی تھی؟
اگر اتنے جعلی سی سی اور او سی ایک ساتھ نکالے جائیں تو اربن ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم نے سی سی نہیں دی، پھر عمارتیں کیسے بن رہی ہیں۔ لوگوں کا الزام ہے کہ یہ سارا کھیل ملی بھگت سے چل رہا ہے۔ بلڈرز کے ساتھ ساتھ میونسپل افسران کے خلاف بھی سخت کاروائی کی جائے۔
پولیس نے محکموں کو خطوط لکھے ہیں جن میں ملزمان کی جانب سے جعلی اسٹیمپ اور لیٹر ہیڈز بنائے تھے، انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔ ملزمین نے تھانے کلکٹر، پالگھر کلکٹر، مہانگر پالیکا، سڈکو، تحصیلدار، گرام پنچایت، گرام سیوک، ریرا، سیکنڈری آفس، ریونیو، تلاٹھی، بینک، فائنانس کمپنی وغیرہ کے لیٹر ہیڈ اور اسٹامپ بنائے تھے۔
ویرار پولیس نے عمارتوں سے متعلق 55 فائلوں کا پتہ لگایا ہے۔ اس پر بی جے پی لیڈر کرن بھوئیر نے کہا کہ جب فلیٹ ہولڈر نے وسئی رجسٹریشن آفس میں رجسٹریشن کروائی تو رجسٹریشن آفیسر نے اس وقت اس کی جانچ کیوں نہیں کی۔ اس جعل سازی میں کہیں نہ کہیں ان کے کردار پر سوال اٹھ رہے ہیں تو ان کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔
وسئی ویرار کی ان غیر قانونی عمارتوں میں اسپتال، اسکول، ہوٹل، دکانیں کھلی ہوئی ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر عمارتیں جعلی سی سی سے بنی ہیں تو فائر بریگیڈ نے بغیر تحقیقات کے این او سی کیسے دے دیا۔ سینکڑوں کمپنیوں اور اسکول و کالجز کے پاس بھی فائر این او سی نہیں ہے۔ بھوئیر نے کہا کہ معاملے کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کرائی جائیں۔
بھوئیر نے الزام لگایا کہ اس جعلسازی میں افسران بھی اتنے ہی قصوروار ہیں جتنے بلڈرز۔ محکمۂ میونسپل پلاننگ کے افسران نے یہاں کے ایکو سینسیٹو زون تک سی سی پاس کر رکھا ہے جس سے ماحولیات کو بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔ سرکاری اراضی پر جعلی سی سی لگا کر عمارتیں بنی ہوئی ہیں۔ اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔
کرن بھوئیر نے کہا کہ ایک دہائی قبل نائیگاؤں کا پورا علاقہ ایک گیلی زمین تھی، جہاں سال بھر پانی رہتا تھا۔ چاروں طرف پانی اور مینگروز تھا۔ اب یہاں بڑے بڑے ٹاور تعمیر ہوچکے ہیں۔ یہاں بنائے جانے والے تمام ٹاورز کی سی سی اور او سی چیک کی جائے۔ یہاں 9 سے 21 منزلوں کی عمارتیں چار منزلہ کی سی سی کے ساتھ تعمیر کی گئی ہیں۔
میونسپل کارپوریشن کی شکایت پر، ویرار پولس نے آنندی ولا کے زمین کے مالک رام بھاؤ پاٹل، آنندی بلڈرس اینڈ ڈیولپرس کے ارون چنتامن پاٹل کے خلاف کیس درج کیا ہے، جنہوں نے ویرار (ایسٹ) سروے نمبر-39 میں فرضی دستاویزات تیار کی تھیں۔ اسی طرح سروے نمبر 88 میں بلڈر چندرکانت یشونت پاٹل اور موہن بی۔ مہاترے نے اجازت کے بغیر چار منزلہ عمارت بھی تعمیر کی ہے۔ پیلی بائی بستور پاٹل، وٹھو پاٹل، پروین پربھاکر پاٹل نے بھی سروے نمبر 91 پر فرضی سی سی سے عمارت تعمیر کی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں