موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس!
ایڈوکیٹ افروز صدیقی کے انتقال پر ایڈوکیٹ شاہد ندیم کا خراج عقیدت
ایڈوکیٹ افروز صدیقی سر کا اس دنیا سے رخصت ہوجانا یقینا ناقابل یقین ہے لیکن یہ بھی طئے ہے کہ ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ موت تو آنی ہے لیکن پچاس سال کی عمر میں اس طرح سے موت کا آجانا ان کے اہل خانہ اور ہم تمام افراد کے لیئے دکھ کا باعث ہے، اللہ تبارک و تعالی افروز صدیقی سرکو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے او ر لواحقین کو صبر جمیل، آمین۔
بقول شاعر۔ رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی۔ تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
مرحوم افروز صدیقی سر کومیں گذشتہ ایک دہائی سے زائد عرصہ سے جانتا ہوں، پچھلے چند سالوں سے تو ان سے تقریباً روز ہی ملاقات ہوتی تھی۔ان کی شخصیت میں ملنساری، خوش مزاجی، نرم گوئی اور قوم و ملت کا درد رکھنے والا عنصر کوٹ کو ٹ کر بھرا ہوا تھا۔ میں نے کبھی انہیں کسی موکل سے غصہ گرمی یا سختی سے بات کرتے نہیں دیکھا، فیس میں کمی کی وجہ سے کبھی کسی مؤکل کو منع نہیں کرتے تھے چاہئے وہ ہندو ہو یا مسلم۔ اکثر میں نے ایک ضعیف العمر غیر مسلم شخص کو آفس میں آکر انکوائری کرتے ہوئے دیکھا ہے، تین دن قبل بھی وہ آفس آیا اور اس کے مقدمہ کے تعلق سے انکوائر ی کرنے لگا، میں نے اس ضعیف شخص کو کہا کہ افروز صدیقی سر بہت بیمار ہیں اور ابھی وہ کورٹ نہیں آسکتے، اس ضعیف شخص نے دعا دی کہ ”بھگوان صدیقی صاحب“ کو جلد اچھا کردے گا، میرا مقدمہ وہی لڑ سکتے ہیں۔ وہ شخص گھنٹوں بیٹھا رہا اور اس امید میں بیٹھا رہا کہ افروز سر کی جانب سے انہیں کوئی جواب موصول ہوگا، اسے یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ افروز سر کی طبیعت ناساز ہے۔ اس ضعیف شخص کے جانے بعد میں ایڈوکیٹ عبدالمتین شیخ سر سے پوچھا کہ اس شخص کا معاملہ کیا ہے تو سر نے بتایا کہ پراپرٹی کا کچھ معاملہ ہے افروز سر گذشتہ کئی سالوں سے محض چند ہزار روپئے فیس پر اس کا مقدمہ دیکھ رہے ہیں، جتنی فیس اس ضعیف شخص نے ادا کی ہوگی اس سے زیادہ تو زیراکس اور دیگر اخراجا ت ہوچکے ہونگے لیکن ایک انسانیت کے ناطے افروز سر اس غیر مسلم شخص کا مقدمہ برسوں سے لڑ رہے ہیں۔ اسی درمیان ایڈوکیٹ شریف شیخ سر نے بتایا کہ ساکی ناکہ میں واقع آفس میں افروز سر رات میں بیٹھا کرتے تھے اور ان کی آفس میں ایسا ہجوم ہوتا تھا جیسا کسی ڈاکٹر کے دواخانے میں ہوتا ہے، ہرشخص کے مسائل کو سننا اور انہیں مخلص اور ایماندارانہ مشورہ دینا ان کا شیوہ تھا۔ بیماری کی حالت میں جیسے ہی ذرا سا افاقہ ہوتا آفس میں جاکر بیٹھ جاتے اور گھنٹوں لوگو ں کی ہر طرح سے مدد کرتے رہتے۔ بامبے ہائی کورٹ میں اکثر جمعیۃ علماء کی گذارش پر ملی مسائل پر پٹیشن داخل کرتے رہے ہیں اور اس میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے دل و جان سے لگ جاتے تھے پھر چاہئے وہ کرونا میں مسلمانوں کی قبرستان میں تدفین کا معاملہ ہو یا مسلم یونانی ڈاکٹروں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی، بیمار ہونے سے قبل ہی انہوں نے مہاوترن اسامی مقدمہ میں جمعیۃ علماء کی گذارش پر ہندو مسلم سمیت درجنوں نوجوانوں کی جانب سے مقدمہ میں پیروی کی تھی جہاں انہیں کامیابی بھی ملی تھی، بامبے ہائی کورٹ میں افروز صدیقی سر مقبول تھے، جج صاحبان انہیں نام لیکر مخاطب کرتے تھے، ہر طرح کے تنازعوں سے اپنے آپ کو ہمیشہ دور رکھا۔ اکثر جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی سے ملی مسائل پر صلاح و مشورہ کرتے رہتے اور گلزار صاحب کی ایک درخواست پر اپنے آپ کو پیش کردیتے تھے، طلاق ثلاثہ مقدمہ میں سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران حاضر رہے، تبریز انصاری ہجومی تشدد معاملے میں رانچی ہائی کورٹ جاکر پٹیشن داخل کی۔7/11 ممبئی لوکل ٹرین بم دھماکہ معاملے میں ملزم کمال انصاری کے لئے عدالت میں اس وقت پیش ہوئے جب ممبئی کے بیشتر وکلاء نے منع کردیا تھا، کبھی کسی سے ڈرے نہیں، نا انصافی کے خلاف ڈٹے رہے، وقف بورڈ کے وکلاء کے پینل کا حصہ رہے۔ ممبرا قبرستان، الہاس نگر قبرستان، بھیونڈی قبرستان اور جانے کتنے قبرستانوں کے مقدمات میں ہائی کورٹ میں پیش ہوکر ان کے مسائل حل کرائے، ناجانے کتنی غریب بستیوں کو اجڑنے سے بچایا، ہائی کورٹ سے بستیوں کو اجڑنے سے بچانے کے لئے اسٹے حاصل کیا اور جھونپڑپٹی میں رہنے والے غریب افراد کو راحت پہنچائی، مسلمانوں کے مذہبی تہواروں کے موقع ہائی کورٹ سے سرکاری تعطیلات کے لئے ہمیشہ خط و کتابت کرتے تھے۔ سی اے این آر سی کی مخالفت میں بامبے ہائی کورٹ کے باہر وکلاء کی جانب سے آئین ہند کی خواندگی میں پیش پیش رہے۔
افروز صدیقی سر کی ایک دیرینہ خواہش تھی کہ وہ بار کونسل آف مہاراشٹر اینڈ گوا کے ممبر بنیں اور وکلاء کے مسائل حکام تک اپنی بات مؤثر طریقے سے پہنچا سکیں، تین سال قبل انہوں نے بار کونسل کے الیکشن میں قسمت آزمائی بھی کی تھی، الیکشن میں ان کے لئے اے ایس ایم ایسوسی ایٹس کے تمام احباب اور ان کے دیگر رفقاء نے پوری ریاست کا دورہ کیا اور وکلاء برادری سے افروز سر کے حق میں ووٹ دینے کی گذارش کی، اے ایس ایم ایسوسی ایٹس نے تن من دھن سے افروز سر کے لئے کوشش کی لیکن مبینہ طور پر مسلم وکلاء نے ان کا ویسا ساتھ نہیں دیا جس کی انہیں امید تھی، افروز سر کو بہت امید تھی کہ مسلم وکلاء اور یو پی بہار سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم وکلاء انہیں ووٹ دیں گے لیکن ایسا ہونہیں سکا۔ ایسا نہیں کہ الیکشن کی شکست سے ان کے کاموں میں کمی واقع ہوئی ہو، ہمیشہ کی طرح وہ اپنی خدمات پیش کرتے رہے، افروز سر کی آفس مجیدیہ مسجد (فورٹ) کی عمارت میں واقع ہے، مسجد کے معاملات کو درست کیا، ٹرسٹیوں کی ہمیشہ مدد کرتے تھے، مسجد کے مفاد سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور نہ ہی کسی کو کرنے دیا۔ افروز سر کی سیاست میں کافی دلچسپی رہتی تھی، سینئر کانگریس لیڈر محمد عارف نسیم خان کے قریبی رہے، ملکی اور صوبائی سیاسی اتھل پتھل پر اکثر گفتگو کرتے رہتے تھے یہ ہی وجہ ہیکہ ایڈوکیٹ شریف شیخ سر انہیں ”نیتا جی“ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ درجنوں جونیئر وکلاء جس میں ہندو مسلم شامل ہیں نے افروز صدیقی سر سے وکالت کے رموز و نکات سیکھے اور آج آزادانہ طور پر کامیابی سے وکلالت کررہے ہیں، افروز سر صرف ایک سینئر نہیں بلکہ سرپرست کا مقام رکھتے تھے، افروز سر کی ایک خواہش تھی کہ کسی طرح سے عدلیہ میں مسلمانوں کا تناسب بڑھایا جا ئے جس کے لئے وہ قانون کی تعلیم حاصل کرچکے بچوں کو ٹیوشن دینے کے لئے تیار رہتے، ان کی خواہش تھی کہ انجمن اسلام میں جوڈیشیل مجسٹریٹ فرسٹ کلاس کی پوسٹ کے لئے ہونے والے امتحانات کی مسلم بچوں کو تیاری کرائی جائے لیکن کسی وجہ سے افروز سر کی یہ خواہش پوری نہیں ہوسکی۔ افروز صدیقی سر کا مالیگاؤں سے گہرا تعلق رہا ہے، سال میں دو سے تین مرتبہ مالیگاؤں کا سفر ہوتا تھا، مالیگاؤں کی وکلاء برادری میں وہ کافی مقبول تھے، راقم کے گھر بھی آتے جاتے تھے۔افروز صدیقی سر کی میت میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی جس میں غیر مسلم وکلاء بھی شامل تھے جن سے افروز سر کے اچھے مراسم تھے، افروز سر کی موت کی خبر سن کر ان کی ساتھ کام کرنے والے جونیئر (غیر مسلم) وکلاء کو روتے ہوئے دیکھا گیا۔ کرلا کورٹ میں پریکٹس کرنے والے ایک سکھ وکیل نے کہا کہ وہ افروز سر کی نماز جنازہ پڑھنا چاہتے اور انہوں نے ہم تمام احباب کے ساتھ نماز جنازہ ادا کی۔ اس بات کا یہاں ذکر کرنا ضروری ہے کہ ایڈوکیٹ افروز سر کے اہل خانہ کے علاوہ کام کرنے والے ایڈوکیٹ شریف شیخ، ایڈوکیٹ متین شیخ، ایڈوکیٹ رازق شیخ، ایڈوکیٹ ارشد شیخ، ایڈوکیٹ انصار تنبولی اوردیگر احباب نے ان کے علاج و معالجہ کی کوششوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، ٹاٹا اسپتال سے لیکر مسینا اسپتال تک انہیں لیکر دوڑتے رہے، بہت کوشش کی لیکن اللہ رب العزت کو جو منظور تھا وہ ہوا، رمضان المبارک کے۴۲/ ویں روزہ میں افروز سر کی روح قبض ہوئی، اور شب قدر میں سپرد آغوش رحمت کردیا، بیشک ہم سب اللہ کے لئے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس۔ یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لئے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں