src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> کانگریس پارٹی سے ڈاکٹر معراج حسین کا استعفیٰ - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

اتوار، 26 فروری، 2023

کانگریس پارٹی سے ڈاکٹر معراج حسین کا استعفیٰ

 




کانگریس پارٹی سے ڈاکٹر معراج حسین کا استعفیٰ



 مسلمانوں میں اویسی کی سیاست کا گراف کیوں بڑھ رہا ہے؟:



: سمیع اللہ خان


 

ڈاکٹر معراج حسین گزشتہ 14 سالوں سے کانگریس پارٹی سے وابستہ تھے، کانگریس کے مسلم لیڈروں میں سے ایک تھے، مودی سرکار آنے کےبعد سے اب تک کانگریس کے بڑے بڑے ستون ہل گئے لیکن وہ ہنوز کانگریس پارٹی سے جڑے ہوئے تھے اور انہوں نے کانگریس پارٹی سے استعفیٰ تب دیا جبکہ وہ جنید اور ناصر کے اہلخانہ سے ملنے گئے تھے وہی جنید اور ناصر جنہیں گئو رکھشا کے علمبردار ہندوتوا دہشتگردوں نے زندہ جلادیا تھا، ڈاکٹر معراج حسین جب متاثرین کے اہلخانہ سے ملنے پہنچے تو ان کی حالت دیکھ دلبرداشتہ ہوگئے، اور وہیں کانگریس پارٹی سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا، *انہوں نے کہا ہے کہ: " میں نے 14 سال کانگریس پارٹی کو دیے اور کانگریس کے لیے میری قوم نے برسراقتدار گروہ (سنگھیوں) سے دشمنی مول لی، قربانیاں دی ہیں، آج مجھے صاف نظر آرہاہے کہ میری قوم کی بے عزتی ہورہی ہے کانگریس پارٹی نے انہیں بے سہارا چھوڑ دیا ہے، جب میں جنید اور ناصر کے گھر والوں سے ملنے پہنچا تو میں نے محسوس کیا کہ ہم پوری طرح سے اکیلے ہیں اور الگ تھلگ کردیے گئے ہیں، کنہیا لال کو جب اودے پور میں قتل کیا گیا تو میری پارٹی کے تمام بڑے لیڈروں نے اس کےخلاف آواز اٹھائی راجستھان کی کانگریس سرکار نے ۵۰ لاکھ معاوضہ دیا ان کے گھر والوں کو سرکاری نوکریاں بھی دی، لیکن جب ہندوتوا دہشتگردوں کےذریعے دو مسلمانوں کو زندہ جلا گیا تو کانگریس کے صدر ملکا ارجن کھڑگے کےعلاوہ راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی نے بھی اس خوفناک ظلم کا نوٹس تک لینا گوارا نہیں کیا، ڈاکٹر معراج حسین نے کہا کہ یہ سوتیلا سلوک بدقسمتی ہے، ڈاکٹر معراج حسین ۱۵ سال کانگریس میں سرگرم رہنے کےبعد اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جنید اور ناصر کے اہلخانہ سے ملنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ جب تک ہمارے لیے لڑنے اور ہماری حفاظت کے لیے قوم کے اندر سے سچے لیڈر نہیں نکلیں گے ہم ہمیشہ اکیلے ہی رہیں گے، کانگریس جیسی پارٹی جسے ہماری قربانیوں کی نہ تو قدر ہے نہ ہی ضرورت توپھر غلاموں کی طرح ان کی وفاداری کرنے کی بجائے ہمیں خود ہی متحد اور منظّم ہوکر اپنی آواز بلند کرنا چاہیے 

 یہ درد چھلکا ہے اُس شخص کا جس نے دیڑھ دہائی کانگریس کا ساتھ دیا، یقینًا اسے ہم جذباتی یا کوئی دوسرا رخ نہیں دے سکتےہیں، یہ حقیقت حال ہے، یہ مرتی ہوئی کانگریس میں سانس لیتی مسلم دشمنی کا ثبوت ہے، کانگریسی لیڈرشپ ابھی بھی مسلمانوں کو دوسرے درجے کا غلام بنانے کی ذہنیت سے باہر نہیں آسکی ہے، 


 صحیح بات ہےکہ موجودہ حالات میں اس ملک کو بچانے کے لیے متحدہ سماجی و سیاسی کوششیں ناگزیر ہیں لیکن محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت اور اپنے حقوق کے بچاؤ کے لیے خود ہی منظّم ہونا ہوگا اور اپنی قیادت اپنی لیڈرشپ کے بغیر ان کی کوئی بات نہ کہیں سنی جائےگی نہ ان کے بہتے خون کی کسی کو پروا ہوگی، 



کانگریس پارٹی جس حساب سے اپنا عملی کردار پیش کررہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے لگتا نہیں ہے کہ مجموعی طور پر کانگریس نے اپنی بدحالی سے کوئی سبق سیکھا ہے، 



 آج کانگریس پارٹی کی طرف سے جاری کردہ ایک اشتہار پر بڑا ہنگامہ مچا ہوا ہے کیونکہ کانگریس پارٹی نے اپنے ۸۵ سالہ کنونشن کے اس اشتہار میں گاندھی نہرو سمیت نرسمہاراؤ اور سردار پٹیل کی تصاویر تو شائع کی ہے لیکن اس میں کانگریس کے چوٹی کے مسلمان لیڈروں میں سے کسی کی بھی تصویر شامل نہیں کی گئی، حالانکہ مولانا آزاد اور بدرالدین طیب جی سمیت کئی ایک مسلمان کانگریس کے صدر تک رہ چکےہیں، لیکن اس اشتہار کی اشاعت کے وقت کانگریس پارٹی کو ان کی یاد نہیں آئی، بعد میں جب اس پر ہنگامہ ہوا تو جے رام رمیش نے معذرت بھی کی لیکن یہ معذرت کسی بھی طرح اس حرکت کے پیچھے کارفرما ذہنیت کو راہِ فرار نہیں دے سکتی، 


 ایسی صورتحال میں صرف راہل گاندھی کی تقریروں کی وجہ سے کانگریس کو متبادل قرار دینا ٹھیک نہیں لگتا ہے کیونکہ راہل گاندھی کی تقریریں اگر خود کانگریس کے اندر ہی بدلاؤ نہیں لاسکتی تو وہ اقتدار میں کیا خاک تبدیلی لائیں گی؟ اور پھر راہل گاندھی خود بھی تو جنید اور ناصر جیسے ہندوتوا دہشتگردی کے شکار مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہونے سے کترا کر خود کو مشکوک بنارہے ہیں 

 ان تلخ حقائق کو سامنے رکھتےہیں تو پھر اندازہ ہوتا ہے کہ آج مسلم نوجوانوں کو اسدالدین اویسی میں امید کی کرن کیوں نظر آتی ہے؟ مسلمانوں میں ایم۔آئی۔ایم جیسی مسلم سیاست اور مسلم۔قیادت کی علمبردار سیاسی پارٹیوں کی طرف رجحان کیوں بڑھ رہا ہے؟ آپکو یا مجھے اسدالدین اویسی کی سیاست سے کتنی ہی شکایت کیوں نہ ہو لیکن ہم جگ ظاہر حقیقت سے نظریں چرا نہیں سکتےہیں، اگر ہم واقعی حقیقت پسند ہیں، اسدالدین اویسی میں مسلمانوں کم از کم اپنی عزتِ نفس اور قومی خودداری تو محسوس ہوتی ہے اور جن سیکولر طاقتوں کےساتھ مل کر سیاسی لڑائی لڑنے کی ہم بات کررہےہیں وہ نام نہاد سیکولر طاقتیں مسلمانوں کے حقوق کی بات کیا کریں گے وہ تو مسلمانوں کو بحیثیت قوم عزت بھی نہیں دے رہے ہیں! جب ان سیکولر اپوزيشن پارٹیوں کے لیڈران دو دو مسلمانوں کے زندہ جلادیے جانے پر بھی منہ نہیں کھولیں گے تو مسلم نوجوانوں میں ان کےخلاف نفرت میں اضافہ نہیں ہوگا تو کیا ہوگا؟ دوسری طرف اویسی ایسے وقت میں مسلمانوں کے لیے آواز بھی اٹھاتے ہیں اور اپنی پارٹی کی طرف سے متاثرہ مظلوم مسلمانوں کے درمیان پہنچ کر ان کی ہمت بھی بڑھاتے ہیں، ان حالات کا فطری نتیجہ کیا ہوگا؟


 یہ حقیقت ہے، بھارت میں اب ہر دوسرے دن مسلم نوجوان اویسی صاحب کی سیاست سے متاثر ہورہا ہے اور مسلمانوں میں ایم۔آئی۔ایم یا پھر اپنی سیاسی قیادت قائم کرنے کا خیال بڑھتا جارہا ہے اور اس کا سبب صرف اور صرف کانگریس جیسی سیکولر پارٹیوں کی مسلمانوں کےخلاف استحصالی ذہنیت ہے،  راہل گاندھی، اکھلیش یادو اور ممتا بنرجی جیسے نیتاؤں کی دوغلی پالیسیاں انہیں انگیز کررہی ہیں، ایسےمیں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ 2024 کے قریب آتے آتے کیا، مسلمانوں کا ووٹ بینک پوری طرح مختلف مسلم سیاسی پارٹیوں میں منقسم ہوجائے گا؟ یا مسلمان کسی نہ کسی سطح پر اپنی سیاسی طاقت کا لوہا منوائیں گے؟

ksamikhann@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages