src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> دہلی پولیس نے 13 سال بعد 17 سالہ چندن کے قاتل کو کیا گرفتار - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

جمعہ، 24 فروری، 2023

دہلی پولیس نے 13 سال بعد 17 سالہ چندن کے قاتل کو کیا گرفتار

 




دہلی پولیس نے 13 سال بعد 17 سالہ چندن کے قاتل کو کیا گرفتار



نئی دہلی: وہ 13 سال سے اپنی شناخت بدل کر دنیا کی نظروں میں دھول جھونک کر پہچان  بدل کر رہا تھا۔ اس قدر شاطر کہ اس نے اپنا نام بدل لیا۔ بھرت لال سے بھرت راؤت بن گیا۔ بدلے ہوئے نام کو اپنی شناخت بنانے کے لیے اس نے جعلی دستاویزات بھی بنالئے۔ دہلی پولیس اسے ڈھونڈ رہی تھی لیکن وہ بہار کے شیوہر ضلع میں رہ رہا تھا۔ آخرکار ایک دہائی سے زائد عرصے کے بعد پولیس نے اسے گرفتار کرلیا۔ اس پر دو دیگر افراد کے ساتھ مل کر اغواء اور قتل کا الزام ہے۔ ان کے شاطرپن کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تینوں نے قتل کو ایک حادثہ کا رنگ دے دیا۔ پولیس بھی یہ مانتی رہی کہ یہ ایک حادثہ ہے لیکن جب عدالت کی مداخلت کے بعد تفتیش ہوئی تو ایسی کرائم سٹوری سامنے آئی کہ پولیس والے بھی حیران رہ گئے۔


27 اگست 2010، شام کا وقت۔ 17 سالہ چندن عرف راہول کی ماں، اندو دیوی، ہرکیش نگر (اوکھلا کے قریب) میں واقع اپنے گھر پر اپنے بیٹے کے اسکول سے واپس آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ چندن عرف راہول ایک سرکاری اسکول میں 12ویں جماعت کا طالب علم تھا۔ جیسے جیسے دیر ہو رہی تھی وہ بے چین ہو رہی تھی۔ جب کافی دیر ہو گئی تو کالکاجی پولیس اسٹیشن میں گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی گئی۔ اسی شام نظام الدین ریلوے اسٹیشن کے قریب ٹریک پر پولیس کو ایک نوجوان کی لاش ملی جس پر کئی زخموں کے نشانات تھے۔ جب اندو دیوی کو لاش کی شناخت کے لیے بلایا گیا تو اس نے متوفی کی شناخت اپنے بیٹے چندن عرف راہول کے طور پر کی۔ ایک پل میں ماں کی کوکھ اجڑ گئی۔ پولیس نے اسے ٹرین حادثے میں موت سمجھا۔



اسی رات اندو دیوی کو ایک نامعلوم نمبر سے کال موصول ہوئی۔ فون کرنے والے نے اپنا تعارف بس کنڈیکٹر محمد دانش کے طور پر کراتے ہوئے کہا کہ ان کے بیٹے کا اسکول بیگ اس کے پاس ہے۔ آکر لے جاؤ اہل خانہ نے اس موبائل نمبر پر کال کی تو وہ موبائل سوئچ آف تھا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ آئی تو پتہ چلا کہ اس کے جسم پر زخموں کے جو نشان تھے وہ موت سے بہت پہلے کے تھے۔ جس کی وجہ سے اہل خانہ کو شک ہوا کہ آیا یہ قتل ہے۔ دوسری جانب پولیس نے کوئی ایف آئی آر نہیں لکھی تھی جب کہ حادثاتی موت کو مان کر تفتیش بند کر دی گئی تھی۔ اہل خانہ عدالت پہنچ گئے۔ عدالتی حکم کے بعد دہلی پولیس نے 11 نومبر 2010 کو اغواء اور قتل کے الزام میں ایف آئی آر درج کی تھی۔

 


ایف آئی آر درج کرنے کے بعد، جب پولیس نے تحقیقات شروع کی تو پتہ چلا کہ چندن کو آخری بار نہرو پلیس کے روٹ نمبر 425 پر بلیو لائن بس میں سوار ہوتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ اس کے بعد پولیس نے اس موبائل نمبر کی تفصیلات حاصل کیں جس سے چندن کی ماں کو کال آئی تھی۔ معلوم ہوا کہ یہ ایک بس کنڈیکٹر محمد دانش کا موبائل نمبر ہے۔ پولیس نے تفتیش کو آگے بڑھایا تو قتل کی پوری کہانی منظر عام پر آگئی، تاہم متعدد بار چھاپے مارنے کے بعد بھی کوئی ملزم گرفتار نہ ہوسکا۔


دراصل چندن اسکول سے واپسی کے لیے بلیو لائن بس میں سوار ہوا۔ بس میں کنڈیکٹر محمد دانش نے ٹکٹ خریدنے کا کہا تو اس نے انکار کر دیا۔ اس کے بعد دونوں میں جھگڑا ہوا۔ معاملہ اتنا بڑھ گیا کہ بس ڈرائیور بھرت لال (اس وقت کی عمر 39 سال) اور خالصی بھی آگئے اور تینوں نے مل کر چندن کو مار مار کر ہلاک کردیا۔ تینوں اس کی لاش کو بس کے ذریعے نظام الدین کے علاقے میں لے گئے اور اسے ریلوے ٹریک پر پھینک دیا تاکہ لوگ اسے ٹرین سے حادثاتی موت کا معاملہ سمجھیں۔


تفتیش کے دوران جب جرم کی پوری کہانی سامنے آئی تو پولیس نے تینوں ملزمان کی تلاش میں چھاپے مارنے شروع کردیئے۔ تینوں جنوبی دہلی کے مختلف علاقوں میں کرائے کے مکانوں میں رہتے تھے۔ دہلی، ہریانہ اور بہار کے مختلف مقامات پر چھاپے مارنے کے بعد بھی پولیس کے ہاتھ کوئی ملزم نہیں لگا۔ 2014 میں کیس ساؤتھ ایسٹ ڈسٹرکٹ انویسٹی گیشن یونٹ کو منتقل کر دیا گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ بس کنڈیکٹر محمد دانش کا انتقال 2011 میں ہوچکا تھا۔ اس کے بعد پولیس نے ڈرائیور بھرت لال اور کلینر کو مفرور قرار دیا اور ان کی گرفتاری پر 50-50 ہزار روپے کا انعام رکھا۔


آخر کار، تقریباً 13 سال بعد، پولیس بہار کے شیوہر ضلع میں بھرت لال کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ وہ اپنا نام اور شناخت بدل کر وہاں رہ رہا تھا۔ گرفتاری کے بعد اس نے پولیس کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا ہے۔ بس کنڈیکٹر دانش پہلے ہی دم توڑ چکا ہے اور تیسرا ملزم کلینر تاحال مفرور ہے۔ پولیس نے ابھی تک اس کا نام  ظاہر نہیں کیا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages