src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> شخصیت ایک. روپ انیک زاہد امین سر - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

جمعرات، 19 جنوری، 2023

شخصیت ایک. روپ انیک زاہد امین سر





شخصیت ایک. روپ انیک
زاہد امین سر


ازقلم.. فرحان دل
9226169933



ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا

ندا فاضلی صاحب کے اس شعر کو میں نے جب بھی پڑھا ایک ہی زاویے سے دیکھا اور سمجھا کہ آدمی کی فطرت وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے اور کسی کے ایک کردار پر بھروسہ نہ کیا جائے ۔
اور شاید آج تک میرا اس شعر کو دیکھنے کا زاویہ نہیں بدلتا اگر میں چار جنوری سن دوہزار تیئس کو رات آٹھ بجے کے آس پاس اپنے عزیز دوست سنگر اشفاق شیخ صاحب کی کال اٹینڈ نہ کرتا اور ان کے بلاوے پر اے ٹی ٹی ہائی اسکول میں نہ جاتا ۔
ہوا کچھ یوں کہ مجھے اشفاق بھائی کا فون آیا اور انہوں نے کہا کہ اگر فرصت ہو تو اے ٹی ٹی ہائی اسکول میں آجاؤ یہاں ڈراموں کا شو جاری ہے اور آخری ڈرامہ شہرِ عزیز مالیگاؤں کے مشہور فلم اسٹوری رائٹرس نعیم اعجاز صاحبان کا لکھا ہوا ہے ۔ میں نے بائک کا رخ اے ٹی ٹی ہائی اسکول کی طرف کردیا اور سچ کہوں تو مجھے وقت کا اندازہ نہیں  ہے کہ آٹھ بجے تھے یا نو یا دس ۔
وہاں پہنچا تو ایک ڈرامے کا آخری سین جاری تھا اور میرے پہنچنے تک پردہ گر چکا تھا ۔ یعنی میں نے اس ڈرامے میں جو سین دیکھا وہ یہ تھا کہ کچھ کردار دربار میں کھڑے تھے اور پردہ گررہا تھا ۔
کچھ وقفہ دوسرے ڈرامے کی تیاری میں لگا اور تب تک شہرِ عزیز کے سب سے اچھے فلوٹ پلیئر (بانسری نواز) شکیل بھٹو صاحب نے ایک گیت کی موسیقی پر بانسری بجا کر سامعین اور ناظرین کو محظوظ فرمایا اور میں نے دیکھا کہ ناظرین میں آخری ڈرامہ دیکھنے کا اشتیاق بڑھتا جا رہا تھا اور پردے کے پیچھے ڈرامے کی تیاریاں جاری تھیں ۔
اے ٹی ٹی ہائی اسکول مالیگاؤں انتظامیہ کے انتہائی اہم رکن پروفیسر عبدالمجید صدیقی صاحب بھی اسٹیج پر آئے اور طلباء و ناظرین سے خطاب کیا اور حوصلہ افزا باتوں کے ساتھ ساتھ بہت سی مفید اور کار آمد باتیں بتائیں اور نعیم اعجاز صاحبان کی بہت تعریف کی ۔ چلیے جب تک ڈرامہ کی تیاریاں پسِ پردہ جاری ہیں ہم کچھ اور باتیں کرلیتے ہیں تاکہ وقت آسانی سے گزر سکے اور ہم پھر یکسو ہوکر ڈرامے کا لطف لے سکیں ۔ ڈرامے کا نام ہے "ٹارچر" 
جیسا کہ آپ احباب جانتے ہیں کہ تین دن قبل اکتیس دسمبر کو صبح نو بجے مجھے مدر عائشہ اسکول میں نعت خوانی کے مسابقے میں بطور چیف جج بلوایا گیا تھا اور بڑی عزت سے نوازا گیا تھا وہ پروگرام دوپہر تین بجے تک چلا تھا اور دوپہر کی پرلطف ضیافت کا انتظام بھی مدر عائشہ اسکول میں ہی کیا گیا تھا ۔
وہاں سےنکل کر میں جمہور ہائی اسکول میں ایک پروگرام میں بطور مہمان شریک ہوا جہاں نظم خوانی اور غزل خوانی کے دو مسابقے ہوئے اور رات دس بجے تک یہ پروگرام چلا تھا ۔
ان دونوں تقریبات میں میری ملاقات زاہد امین سر سے ہوئی جو مالیگاؤں کے ایک مشہور چینل ری سائٹ ٹوڈے کے اینکر  ہیں اور بہترین نستعلیق شخصیت کے مالک ہیں ۔
دونوں تقریبات میں موصوف نے میرا پرتپاک استقبال کیا اور جیسا کہ ان کی طبیعت کا خاصہ ہے وہ مجھ سے بہت خوش اخلاقی اور خندہ پیشانی سے پیش آئے ۔
زاہد امین صاحب کو میں جہاں تک جانتا ہوں انہیں اردو ادب سے خاص لگاؤ ہے اور اپنے شعبے سے ان کی ایمانداری جگ ظاہر ہے ۔ جب بھی ملتے ہیں ہنس کر مسکرا کر بات کرتے ہیں اور مقابل کو زیادہ بولنے کا موقع دے کر ایک خوشگوار ماحول پیدا کرتے ہیں ۔
ان کے حلقۂ احباب میں اللہ نے انہیں بہت معتبر مقام عطا فرمایا ہے ۔ سنجیدہ، بردبار، متین اور اس قبیل کے جو بھی الفاظ ہیں وہ زاہد امین سر جیسے ہی احباب کے لیے بنائے گئے ہیں ۔ اپنی لگن، جدوجہد اور مسلسل محنت سے انہوں نے اپنے شعبے میں ایک خاص مقام بنایا ہے اور اپنی ایک مخصوص شخصیت تشکیل دی ہے ۔ کل ملا کر ایک بات سامنے آتی ہے کہ زاہد امین سر سے ملنے کے بعد انسان اپنے ذہن میں ایک خاص تاثر لے کر ہٹتا ہے اور وہ جب بھی ان سے دوبارہ ملتا ہے اس شخصیت اور کردار میں کوئی تبدیلی نہیں ڈھونڈ سکتا ۔

چلیے ابھی میری بات جاری ہی ہے مگر ڈرامہ شروع ہونے کا وقت آچکا ہے اور پردہ اٹھنے والا ہے تو چلتے ہیں ڈرامے کی طرف ۔


پردہ دھیرے دھیرے اٹھا اور جو منظر سامنے آیا وہ ٹارچر سیل کا ہے اور ایک شخص جو شاید ملزم ہے کرسی پر رسیوں سے بندھا ہوا ہے اور ایک پولس والا اسے ڈنڈے سے بری طرح مار رہا ہے اور پورا روم اس کی چیخوں سے گونج رہا ہے ۔ اس شخص نے (جس کا نام ایمان بتایا گیا کے) پاشا سیٹھ نامی کسی حیدرآبادی مالدار شخص کے گھر میں پچاس لاکھ کی چوری کی ہے جو ایک سود خورسیٹھ ہے اور اس نے بہت سارے لوگوں کو سود پر رقم دی ہوئی ہے اور پولس والا اس ملزم سے اقبالِ جرم کروانے کی کوشش کررہا ہے ۔


پانچ دس منٹ کی مار پیٹ اور مکالموں سے اس بات کا اندازہ ہوچکا ہے کہ وہ شخص اقبالِ جرم نہیں کررہا ہے اور ایک بات کا اور اندازہ ہوا کہ پولس کے نزدیک جرم یہ نہیں ہے کہ اس شخص نے چوری کی ہے، بلکہ جرم یہ ہے کہ اس نے ایک تو کم پیسوں کی چوری کی ہے اور دوسرا یہ کہ اس نے اس کام میں پولس والوں کا حصہ نہیں لگایا ہے بلکہ پوری رقم خود ہی ہڑپ کرگیا ہے ۔
اسی دوران پاشا سیٹھ ریمانڈ روم داخل ہوتا ہے اور آپ احباب یقین جانیے کہ ان پانچ دس منٹوں میں جو کچھ بھی ماحول ہم پر اثر انداز ہوا تھا وہ یکسر زائل ہوجاتا ہے اور ناظرین کی نظر پاشا سیٹھ پر رک جاتی ہے، کان اس کے جملوں پر لگ جاتے ہیں اور لوگوں کے ذہن پر صرف اور صرف پاشا سیٹھ کی حیدرآبادی شخصیت کے سوا کچھ باقی نہیں رہ جاتا ۔ حیدرآبادی زبان اتنی روانی سے لوگوں کے ذہنوں تک رسائی کرتی ہے کہ لوگ اس کے اتار چڑھاؤ کے لطف سے باہر ہی نہیں نکل پاتے ۔ ہاتھ میں ایک لکڑی لے کر دوسرا ہاتھ اپنی پشت پر رکھے ایک خاص انداز میں چلتا پھرتا وہ پاشا سیٹھ اپنے وجود سے پورے ریمانڈ ہوم کو پُر کردیتا ہے ۔ خالص کاروباری لہجے میں اس کا پولس والے سے اس بات پر زور دینا کہ تم اس سے جرم قبول کرواؤ اور ایک خاص جملہ جو اس کا تکیۂ کلام تھا کہ "میرے کنے بہت پیسے ہیں " پورے سامعین اور ناظرین کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔ بعد کی کہانی کچھ یوں ہے کہ پاشا سیٹھ نے پولس والے کو بھی سود پر پیسے دیے ہوئے ہیں، رپورٹر کو بھی اور یہاں تک کہ وکیل بھی اس کے اس سودی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اس لیے ایمان (ملزم) کا بچنا مشکل ہی لگ رہا ہے، اور ایمان نے اپنی بیوی کے کہنے پر اپنی بیٹی کی شادی دھوم دھام سے کرنے کی غرض سے پاشا سیٹھ جیسے ہی کسی اور سود خور سیٹھ سے قرض لیا ہوا ہے اور اب کسی طرح اس دلدل سے نہ نکل سکنے کی بنا پر اس نے پاشا سیٹھ کے گھر میں پچاس لاکھ روپیوں کی چوری کی ہے ۔
آخر میں اسی ٹارچر روم میں ایمان کرسی سے بندھا ہوا مرجاتا ہے تب پاشا سیٹھ پولس والے کو دس لاکھ روپیے دے کر معاملہ رفع دفع کرواتا ہے اور پولس والا ایمان کے گھر فون کر کے کہتا ہے کہ آپ لوگوں کے کہنے پر سود کے دلدل میں پھنس کر ایمان مرگیا ہے ۔


کل ملا کر ایک سبق آموز ڈرامہ تھا اور تمام اداکاران اپنی جگہ بہترین رہے مگر 
پورے ڈرامے پر پاشا سیٹھ کی اداکاری محیط رہی اور جب تک پاشا سیٹھ نامی اداکار اسٹیج پر رہا اس نے کسی اور اداکار کو اثرانداز نہیں ہونے دیا ۔
مجھے تو اپنی آنکھوں اور کانوں پر ایک لمحے کو بھی یقین نہیں آیا کہ جس  حیدرآبادی پاشا سیٹھ کو میں اسٹیج پر چلتا پھرتا دیکھ رہا ہوں یہ کوئی مالیگاؤں کا اداکار ہے اور اس بات پر تو میں آج بھی یقین نہیں کرپارہا ہوں کہ وہ اداکار زاہد امین سر تھے ۔


ایک سلجھی ہوئی نستعلق شخصیت کے مالک کو میں آج بھی ایک ٹھیٹھ حیدرآبادی پاشا سیٹھ کے روپ میں قبول نہیں کر پا رہا ہوں ۔
اللہ رب العزت نے کس شخص میں کیسی صلاحیت پوشیدہ رکھی ہے یہ اسی وقت ہم پر کھلتا ہے جب ہم اسے اس روپ میں دیکھ لیتے ہیں ۔ میں تو دل سے زاہد امین سر کی اداکاری کا قائل ہوگیا ہوں اور اب میرا انسانوں کو دیکھنے کا نظریہ بدل گیا ہے ۔ اپنی ایک مخصوص شخصیت بنا کر رکھنے والے یہ  افراد اپنے اندر کیسی کیسی خصوصیات اور کوالٹیز رکھتے ہیں یہ کوئی عام آنکھ سمجھ ہی نہیں سکتی ۔
شہر مالیگاؤں میں سراج دلار صاحب، بادشاہ پالش والے معیذ بادشاہ سر، پرنس رحمان اور عبدالحمید شیخ صاحب کو تو میں نے دیکھا اور ان کی صلاحیتوں کا دل سے معترف ہوں ہی مگر زاید امین سر کی اداکاری نے مجھ پر جو اثر ڈالا ہے وہ میرے لیے ناقابلِ فراموش ہے ۔
شہر مالیگاؤں پر اللہ رب العزت کی رحمت ویسے بھی اور علاقوں سے زیادہ ہی رہی ہے ۔ شاعری ہو، افسانہ نگاری ہو، خطاطی ہو، پینٹنگ ہو، گائیکی ہو یا کسی بھی شعبے میں دیکھیے آپ کو ایسے ایسے ایماندار افراد ملیں گے جو جنون کی حد تک اپنے شوق سے لگاؤ رکھتے ہیں اور مسلسل جدوجہد سے اپنی ایک شناخت بنا کر اہنے فن کا لوہا منوا کر ہی دم لیتے ہیں ۔


میں اپنی اور تمام اہلیانِ شہر کی جانب سے زاہد امین سر کو بہت مبارکباد دیتا ہوں اور اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ آپ کو اپنی شان کے مطابق مقام و مرتبہ عطا فرمائے ۔ 

🖋️ فرحان دِل ۔ مالیگاؤں ۔
📞 9226169933

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages