جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا اہم اجلاس اختتام پذیر
مسلمانوں یا کسی بھی طبقہ کے ساتھ ناانصافی اور امتیازی برتاؤ ناقابل برداشت : مولانا ارشد مدنی
اپنی بچیوں کو ارتداد کے فتنہ سے بچانے کے لئے ہمیں اپنے تعلیمی ادارے کھولنے ہی ہوں گے
نئی دہلی 8/جنوری 2023 : مرکزی دفتر جمعیۃ علماء ہند کے مدنی ہال نئی دہلی میں جمعیۃ علماء ہند کی ورکنگ کمیٹی کا ایک انتہائی اہم اجلاس صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کی صدارت میں منعقد ہوا، اجلاس کے شرکاء نے ملک کی موجودہ صورت حال پر غور و خوض کرتے ہوئے ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت، شدت پسندی امن و قانون کی ابتری اور مسلم اقلیت کے خلاف بدترین امتیازی رویہ پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ ملک کے امن و اتحاد اور یگجہتی کے لئے یہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے، فرقہ پرست طاقت کے ذریعہ آئین و قانون کی پامالی کی یہ موجودہ روش ملک کے جمہوری ڈھانچے کو تار تار کررہی ہے اور ساتھ ہی دوسرے اہم ملی اور سماجی ایشوز اور عصری تعلیم اور اصلاح معاشرہ کے طریقہ کار نیز دفتری و جماعتی امور پر تفصیل سے گفتگو ہوئی۔ اجلاس میں مختلف معاملوں کو لیکر جمعیۃ علماء ہند کی قانونی امدادکمیٹی جو مقدمات لڑرہی ہے ان کی پیش رفت کا بھی جائزہ لیا گیا ان مقدمات میں آسام میں شہریت اور ملک میں مذہبی مقامات کے تحفظ سے متعلق ایکٹ کو برقرار رکھے جانے والے زیرسماعت اہم مقدمات بھی شامل ہیں، آسام شہریت کے تعلق سے سپریم کورٹ نے جو این آر سی کروائی ہے اس کی بنیاد1971 ہے، اگر خدانخواستہ 1951کو بنیاد بنایا گیا تو ایک بارپھرآسام کے لاکھوں لوگوں کی شہریت پر خطرہ منڈلانے لگے گا۔ اس سلسلہ میں سپریم کورٹ 10 /جنوری کو سماعت کریگی، اس معاملہ میں جمعیۃ علماء ہند ایک اہم فریق ہے، جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر وکلاء کپل سبل، سلمان خورشید، اندرا جئے سنگھ اور ایڈوکیٹ آن ریکارڈفضیل ایوبی پیش ہونگے۔ اسی طرح عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کو چیلنج کرنے والی عرضداشت پر سپریم کورٹ 9 /جنوری کو سماعت کریگی، جمعیۃ علماء ہند پٹیشن داخل کرکے 1991 کے عبادت گاہ تحفظ قانون کی حفاظت کی عدالت سے درخواست کی ہے۔ طویل غور و خوض کے بعد طے پایا کہ جمعیۃ علماء ہند کی مجلس منتظمہ کا اجلاس بہار کی دارالحکومت پٹنہ میں کیا جائے گا، اس کے لئے25/24/فروری کی تارخیں مقرر کی گئی ہیں جبکہ 26 /فروری کو اجلاس عام منعقد ہوگا، نادار اور ضرورت مند طلباء کو دی جانے والی اسکالرشپ کو طلباء کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ایک کروڈ سے بڑھا کر اس سال دو کروڑ روپے کردی گئی ہے۔ توقع ہے کہ ہم اپنی مجوزہ بجٹ سے زیادہ سے زیادہ ضرورت مند بچوں تک اپنی مالی تعاون پہنچا سکیں گے، اس موقع پر مجلس عاملہ سے خطاب کرتے ہوئے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ایک طرف جہاں مذہبی شدت پسندی کو ہوا دینے اور عوام کے ذہنوں میں منافرت کا زہر بھرنے کا مذموم سلسلہ پورے زور و شور سے جاری ہے، وہیں دوسری طرف مسلمانوں کو تعلیمی اورسیاسی طور پر بے حیثیت کر دینے کے خطرنا ک منصوبہ کا بھی آغاز ہوچکا ہے، مولانا مدنی نے کہا کہ پچھلے چند برسوں کے دوران ملک کی اقتصادی اور معاشی حالت حد درجہ کمزور ہوئی ہے اور بے روزگاری میں خطرناک حدتک اضافہ ہوچکا ہے مگر اس کہ باوجود اقتدارمیں بیٹھے لوگ ملک کی ترقی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں اور اس مہم میں جانبدار میڈیا ان کاکھل کر ساتھ دے رہا ہے، انہوں نے کہا کہ اقتصادی اور بے روزگاری کے مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے ہی مذہبی شدت پسندی کو بڑھاوا دیا جارہا ہے، مولانا مدنی نے آگے کہاکہ مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ بنیادپر عوام کو تقسیم کرنے کا یہ کھیل ملک کو تباہ کردے گا، مذہب کا نشہ پلاکر بہت دنوں تک حقیقی مسائل سے گمراہ نہیں کیا جاسکتا، روٹی، کپڑا اور مکان انسان کی بنیادی ضرورتیں ہیں اس لئے منافرت کی سیاست کو بڑھاوادینے کی جگہ اگر روزگار کے وسائل نہیں پیدا کئے گئے، پڑھے لکھے نوجوانوں کو نوکریاں نہیں دی گئیں تووہ دن دور نہیں کہ جب ملک کی نوجوان نسل سراپا احتجاج ہوکر سڑکوں پر نظرآئے گی۔ آسام مدھیہ پردیش اور اترا کھنڈ ریاستوں میں مسلمانوں کو بے گھر کرنے کی منصوبہ بندی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ آسام میں سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنے کے الزام میں جہاں سو سال سے بسنے والی مسلم بستیوں کواجاڑاجارہا ہے وہیں مدھیہ پردیش کے شہر اجین میں مہاکبھ کے پیش نظر ایک پارکنگ کی تعمیر کے لئے مسلمانوں کو بے گھر کردینے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے، جبکہ اتراکھنڈکے ہری دوار میں ریلوے ٹریک کو چوڑا کرنے کی آڑ میں 43 سو مسلم اور کچھ غیرمسلم خاندانوں کو بے گھر کردینے کی مہم شروع ہوچکی ہے ہر چند کے سپریم کورٹ نے عبوری اسٹے دیا ہے لیکن خطرہ بدستور برقرار ہے، انہوں نے کہا کہ یہ کیا انصاف ہے کہ دہائیوں سے آباد لوگوں کو بے گھر کردیا جائے، انہیں مناسب معاوضہ بھی نہ دیاجائے اور ان کی باز آباد کاری کے لئے متبادل زمین بھی مہیانہ کی جائے، ملک میں تیزی سے پھیل رہے ارتدادکے فتنہ کو خطرناک قرار دیتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف اسے منصوبہ بند طریقہ سے شروع کیا گیا ہے،جس کے تحت ہماری بچیوں کو نشانہ بنایاجارہا ہے، اگر اس فتنہ کو روکنے کے لئے فوری موثرتدبیر نہ کی گئی تو آنے والے دنوں میں صورتحال دھماکہ خیز ہوسکتی ہے، انہوں نے زوردیکر کہا کہ اس فتنہ کو مخلوط تعلیم کی وجہ سے تقویت مل رہی ہے اورہم نے اسی لئے اس کی مخالفت کی تھی، اورتب میڈیا نے ہماری اس بات کو منفی اندازمیں پیش کرتے ہوئے یہ تشہیر کی تھی کہ مولانا مدنی لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں، جبکہ ہم مخلوط تعلیم کے خلاف ہیں،لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں، مولانا مدنی نے کہا کہ ملت کی فلاح و بہبوداور ان کی تعلیمی ترقی کے لئے اب جو کچھ کرنا ہے ہمیں ہی کرنا ہے، مولانا مدنی نے کہاکہ ملک کی آزادی کے بعد ہم بحیثیت قوم تاریخ کے انتہائی نازک موڑ پر آکھڑے ہوئے ہیں، ہمیں ایک طرف اگر طرح طرح کے مسائل میں الجھایا جارہا ہے تو دوسری طرف ہم پر اقتصادی، سماجی، سیاسی اور تعلیمی ترقی کی راہیں بندکی جارہی ہیں، اس خاموش سازش کو اگر ہمیں ناکام کرنا ہے اور سربلندی حاصل کرنا ہے تو ہمیں اپنے بچوں اور بچیوں کے لئے الگ الگ تعلیمی ادارے خود قائم کرنے ہوں گے، انہوں نے آخر میں کہا کہ قوموں کی تاریخ شاہد ہے کہ ہر دور میں ترقی کی کنجی تعلیم رہی ہے، اس لئے ہمیں اپنے بچوں کو نہ صرف اعلیٰ تعلیم کی طرف راغب کرنا ہوگا بلکہ ان کے اندر سے احساس کمتری کو باہر نکال کر ہمیں انہیں مسابقتی امتحانات کے لئے حوصلہ دینا ہوگا اورہم اسی صورت سے اپنے خلاف ہونے والی ہر سازش کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا اجلاس تمام انصاف پسند جماعتوں اور ملک دوست افراد سے اپیل کرتا ہے کہ ردعمل اور جذباتی سیاست کی بجائے متحد ہوکر شدت پسند اور فسطائی طاقتوں کا سیاسی اور سماجی سطح پر مقابلہ کریں اور ملک میں بھائی چارہ، باہمی رواداری اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ہر ممکن جدوجہد کریں، اگر فسطائی جماعتوں اور ان کے حامیوں کا یہ خیال ہے کہ ان کے اس جبر و ظلم کے آگے مسلمان سرنگوں ہوجائیں گے اور وطن عزیز میں وہ ان کی غلامی اور جبر کی زنجیروں میں بندھ جائیں گے، تویہ ان کی خام خیالی ہے، ہندوستان ہمارا ملک ہے، اس ملک میں ہم پیداہوئے ہیں اور اس کی فضاؤں میں ہم پروان چڑھے ہیں، ہمارے آبا و اجداد نے اس ملک کو نہ صرف مضبوط و مستحکم کیا ہے بلکہ اس کے تحفظ و بقاکے لئے اپنی جانیں تک قربان کی ہیں، اس لئے ہم ملک میں مسلمانوں یا کسی بھی طبقہ کے ساتھ نا انصافی اور امتیازی برتاؤ کو برداشت نہیں کر سکتے۔ اجلاس میں صدر جمعیۃکے علاوہ مفتی معصو ثاقب ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند، مولانا سیداسجد مدنی، مولانا سید اشہد رشیدی، مفتی غیاث الدین حیدرآباد، مولانا مشتاق عنفر آسام، مولانا بدراحمد مجبیبی پٹنہ، مولانا عبداللہ ناصر بنارس، قاری شمس الدین کلکتہ، مفتی اشفاق احمد اعظم گڑھ،حاجی سلامت اللہ دہلی، ایڈوکیٹ فضیل ایوبی دہلی، مولانا فضل الرحمن قاسمی،کے علاوہ بطورمدعوئین خصوصی مولانا محمد مسلم قاسمی دہلی، مولانا محمد راشد راجستھان، مولانا محمد خالد ہریانہ، مولانا مکرم الحسینی بہار،مولانا حلیم اللہ قاسمی ممبئی، شاہد ندیم ایڈوکیٹ ممبئی، مولانا عبدالقیوم مالیگاؤں، مفتی حبیب اللہ جودھپور، وغیرہ شریک ہوئے۔ اجلاس کا اختتام صدر محترم کی دعا پر ہوا۔
فضل الرحمن قاسمی
پریس سیکریٹری جمعیۃ علماء ہند
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں