src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> فیس بک دوست سے ملنے جانے والی لڑکی کا قتل: 'سوچ کر دکھ ہوتا ہے کہ اس کے آخری لفظ کیا ہوں گے، کتنی ڈری ہوئی ہو گی - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

بدھ، 12 اکتوبر، 2022

فیس بک دوست سے ملنے جانے والی لڑکی کا قتل: 'سوچ کر دکھ ہوتا ہے کہ اس کے آخری لفظ کیا ہوں گے، کتنی ڈری ہوئی ہو گی

 



فیس بک دوست سے ملنے جانے والی لڑکی کا قتل:

 'سوچ کر دکھ ہوتا ہے کہ اس کے آخری لفظ کیا ہوں گے، کتنی ڈری ہوئی ہو گی



کئی برسوں تک جیک سیپل اور ایشلے واڈزورتھ جدید دور کے قلمی دوست تھے جو انٹرنیٹ کا استعمال کر کے ایک دوسرے سے 7242 کلومیٹر دور ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے قریب رہتے۔


مگر جب 19 سالہ ایشلے نے کینیڈا چھوڑ کر جیک کے پاس برطانیہ منتقل ہونے کا فیصلہ کیا تو چند ماہ بعد ہی سیپل نے اُنھیں قتل کر دیا۔


ایشلے کی والدہ کرسٹی جینڈرون کہتی ہیں کہ 'اس کے آخری لمحات کے بارے میں سوچ کر ہی دکھ ہوتا ہے۔ وہ کتنی ڈری ہوئی ہو گی، اس کے آخری لفظ کیا ہوں گے، اس نے کیا مانگا ہو گا؟

'میں یہ کبھی نہیں جان پاؤں گی۔ یہ سب صرف دو ہی لوگوں کو معلوم تھا جن میں سے ایک اب اس دنیا میں نہیں اور ایک شاید کبھی بھی سچ نہ بتائے۔'

کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا کے شہر ورنن سے تعلق رکھنے والی ایشلے 23 سالہ جیک کے پاس برطانیہ کے شہر چیمزفورڈ کے ٹینیسن روڈ پر واقع ایک کمرے کے اپارٹمنٹ میں رہنے کے لیے آئی تھیں۔


رواں سال یکم فروری کو پولیس کو ایشلے کی لاش ملی۔ ان کا گلا بھی گھونٹا گیا تھا اور انھیں سینے میں متعدد بار خنجر گھونپا گیا تھا۔ اُنھیں موقع پر ہی ہلاک قرار دے دیا گیا۔ اس وقت جیک ان کی لاش کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھے ہوئے تھے۔

ایشلے کے قتل کا اعتراف کرنے کے بعد جیک کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے جبکہ کم از کم 23 برس اور چھ ماہ اُنھیں جیل میں گزارنے ہوں گے۔

BBCایشلے کی والدہ کرسٹی جینڈرون کہتی ہیں کہ ایشلے کا قتل ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا

'اسے روکنا ممکن ہی نہیں تھا'

کرسٹی کہتی ہیں کہ اُن کی بیٹی ایشلے توانائی سے بھرپور تھیں۔ 'وہ بہت زبردست تھی۔ اسے تجسس رہتا، وہ ایڈونچر پسند کرتی، کھیل کھیلتی اور ہمیشہ گھر سے باہر ہوتی۔'


کرسٹی کہتی ہیں کہ اُن کی بیٹی ایشلے توانائی سے بھرپور تھیں۔ 'وہ بہت زبردست تھی۔ اسے تجسس رہتا، وہ ایڈونچر پسند کرتی، کھیل کھیلتی اور ہمیشہ گھر سے باہر ہوتی۔'

ایشلے کو گھڑ سواری، سکیئنگ، اور کشتی رانی پسند تھی۔ جب وہ 12 برس کی تھیں تو ورنن میں ایک دوست نے ان کا انٹرنیٹ پر ایک انگریز لڑکے جیک سیپل سے تعارف کروایا۔

کرسٹی کہتی ہیں کہ اگلے سات برس تک ایشلے اور سیپل 'فیس بک پر قلمی دوست' بنے رہے۔

'یہ کوئی رومانوی تعلق نہیں تھا۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہتے، پھر کچھ دن کے لیے باتیں بند ہو جاتیں۔ پھر دوبارہ بات چیت شروع ہو جاتی۔ وہ بڑا ہونے پر دوسری لڑکیوں کو ڈیٹ کیا کرتا تو دوبارہ کچھ عرصے کے لیے بات چیت بند ہو جاتی۔'


ذاتی طور پر کبھی نہ ملنے کے باوجود جیک کا چہرہ ورنن میں ایشلے کے خاندان کے لیے بہت مانوس تھا۔ وہ ڈرائنگ روم میں جیک کے ساتھ فیس ٹائم پر بات چیت کر رہی ہوتیں اور اگر کرسٹی پاس سے گزرتیں تو جیک کو ہیلو بھی کہہ دیتیں۔

جب ایشلے 18 برس کی ہوئیں تو اُنھوں نے مورمن فرقہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اُنھوں نے اپنی والدہ سے کہا کہ وہ ایک 'روحانی لمحے' سے گزری ہیں۔

اس کے بعد ایشلے نے فیصلہ کیا کہ وہ برطانیہ جا کر جیک کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں۔ کرسٹی کو اس بات پر خدشات تھے 'مگر اسے روکنا ناممکن تھا۔ اس کا برج اسد تھا۔'

'ایشلے جس بھی لڑکے سے ملتی، اس کا موازنہ جیک سے کیا کرتی۔ ہر بات ہمیشہ جیک تک ہی جا پہنچتی۔ مجھے لگا کہ زیادہ سے زیادہ جو برا ہو گا وہ یہ کہ وہ جائے گی، ان کی بات نہیں بنے گی اور وہ واپس آ جائے گی۔ قتل تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔'

ایشلے نے اپنے خاندان اور چیمز فورڈ میں مورمن چرچ کو جیک کے رویے کے بارے میں اپنے خدشات سے آگاہ کیا تھا۔ کینیڈا واپسی کے لیے ان کی فلائٹ 3 فروری کے لیے بک تھی۔

مگر برطانیہ چھوڑنے سے دو دن قبل ہی جیک نے اُنھیں مار ڈالا۔

'ایشلے اب نہیں رہی، جیک نے اسے مار ڈالا'

ایشلے کے والد کین واڈزورتھ کہتے ہیں کہ 'میں یکم فروری کی صبح سو کر اٹھا اور میری بیٹی ہیلی مجھے فون پر بتا رہی تھی کہ میری بہن مر گئی، ایشلے مر گئی۔ ایشلے مر گئی ہے۔ جیک نے اسے مار ڈالا۔'

اُنھیں یاد ہے کہ اُنھوں نے کال بند کی اور پھر کینیڈا میں پولیس کو کال کر کے بتایا کہ اُنھیں خدشہ ہے کہ ان کی بیٹی انگلینڈ میں ہے اور اُنھیں قتل کر دیا گیا ہِے۔

تھوڑی دیر بعد اُنھیں برطانیہ کی ایسیکس پولیس نے کال کی تو اُنھیں معلوم ہوا کہ ان کی 'چھوٹی سی بچی، جو بہت کچھ کرنا چاہتی تھی' اب مر چکی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں 'آپ کا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ میں ڈاکٹر کے پاس گیا اور اُنھیں بتایا کہ مجھے سینے میں بہت درد ہو رہا ہے، یہ جا ہی نہیں رہا، تو مجھے بتایا گیا کہ یہ دل کا درد ہے۔'

BBCایشلے کے والد کین واڈزورتھ نوجوانوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ڈیٹنگ کرنے سے پہلے دوسرے شخص کا جائزہ ضرور لیں

'یہ بہت مشکل ہے۔ آپ کی چھوٹی بچی اس طرح چلی جائے۔ اس غم کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں۔ وہ کبھی بھی اپنے احساسات بیان کرنے سے گھبراتی نہیں تھی۔ وہ بہت زبردست تھی، محبت سے بھرپور۔ ہم نے اسے آزادی دی اور اس نے اس کا استعمال کیا۔'

کین اپنی اہلیہ کے ساتھ برطانیہ گئے تاکہ کاغذی کارروائی پوری کر کے ایشلے کی لاش وصول کر سکیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 'یہ میری زندگی کا سب سے برا وقت تھا۔'

'ہمیں اس کے ماضی کا ذرا علم نہیں تھا'

جیک سیپل اپریل 2020 میں اپنی ایک پچھلی رفیق کے ہمراہ ٹینیسن روڈ منتقل ہوئے تھے۔ اُنھوں نے ایشلے کا قتل اس بات پر مشتعل ہو کر کیا کہ وہ کینیڈا واپس کیوں جانا چاہتی ہیں۔

یکم فروری کو صبح آٹھ بجے ایک پڑوسی نے ایشلے کے چلانے کی آوازیں سنیں اور پھر ایشلے نے پریشانی کے عالم میں ان کا دروازہ بجایا۔

ایشلے نے اُنھیں بتایا کہ جیک نے اُنھیں مارا ہے اور گھر میں موجود بلی کے بچے کو دیوار سے دے مارا ہے۔

اُنھوں نے پڑوسی کو بتایا کہ جیک نے اُنھیں فون پر ایک برہنہ خاتون کی تصویر دیکھتے ہوئے پکڑا تو ان کا فون توڑ دیا، اُنھیں ہم جنس پرست کہا اور پھر اُن پر حملہ بھی کیا۔ ایشلے نے اُن خاتون کو بتایا کہ اُنھیں خدشہ ہے کہ جیک اُنھیں قتل کر دے گا۔

پڑوسی خاتون جیک سیپل سے بات کرنے کے لیے گئیں اور پایا کہ وہ پرسکون تھے۔ پھر وہ ایشلے کو اپنے ساتھ لے کر واپس آئیں۔ جیک نے ایشلے سے معافی مانگی اور پھر وہ پڑوسی اپنے کسی کام سے چلی گئیں۔

دوپہر کے وقت ایشلے نے چیمزفورڈ میں مورمن چرچ میں اپنے کئی دوستوں کو پیغامات بھیجے جن میں لکھا تھا کہ ایمرجنسی ہے اور مدد چاہیے۔

کچھ دیر بعد جیک نے ان کا فون استعمال کر کے پیغامات بھیجے جن میں سب سے کہا گیا کہ اب سب کچھ ٹھیک ہے۔

ایشلے کے چرچ کے دوستوں جیمی ایشورتھ اور ٹیلر بورڈن ٹینیسین روڈ پر واقع اس گھر پہنچے۔ جب اُنھیں جواب نہیں ملا تو اُنھوں نے پولیس کو فون کیا۔

ایشلے کا گلا گھونٹنے اور اُنھیں قتل کرنے کے بعد جیک نے ایشلے کی لاش بستر پر ہی چھوڑ دی اور اپنی بہن نادیہ سے فیس ٹائم پر بات کرنے لگے۔

وہ فون پر ہی تھے جب پولیس شام چار بجے ان کے گھر میں زبردستی داخل ہوئی۔

جیک سنہ 2014 سے لے کر اب تک آن لائن ہراسانی، حملے اور عدالتی پابندیوں کی خلاف ورزی کے کئی واقعات میں ملوث رہے ہیں۔

ایشلے کو قتل کرنے سے قبل اُن پر پچھلی رفیق کے حوالے سے بھی باقاعدہ الزامات عائد کیے گئے تھے جن میں حبسِ بے جا میں رکھنا، حملہ، اور جابرانہ رویہ شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

مگر جب نشانہ بننے والی خاتون نے ٹرائل میں حصہ نہیں لیا تو استغاثہ نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیے اور جیک کو بس عدالتی پابندی عائد کر کے چھوڑ دیا گیا۔

کین واڈزورتھ کہتے ہیں کہ 'ہمیں اس کے ماضی کا ذرا علم نہیں تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ میں نے اسے بھیڑیوں کے حوالے کر دیا تھا۔'

کین اور کرسٹی چاہتے ہیں کہ لوگ ایشلے کی کہانی سے سبق سیکھیں۔

'اگر آپ کو لگے کہ کچھ ٹھیک نہیں تو پھر دوسرے کی یہ بات نہ سنیں کہ سب ٹھیک ہو چکا ہے۔'

'اگر آپ کو اندر سے یہ احساس ہو کہ آپ کی بہن، آپ کی دوست، خالہ، آپ کی والدہ، آپ کی بیٹی اس طرح کی صورتحال میں یا تعلق میں ہے تو پولیس کو ضرور کال کریں، مداخلت کریں۔'

کین لڑکیوں اور لڑکوں سے کہتے ہیں کہ 'ڈیٹنگ کرنے سے پہلے اس شخص کو ضرور دیکھیں۔ اپنی عقل کا استعمال کریں اور آگاہ رہیں۔'

'وہ ہمارا حصہ تھی'

ایشلے اپنی بڑی بہن ہیلی اور ان کی بیٹی پیسلے کو بہت پسند کرتی تھیں۔ کرسٹی جینڈرون کہتی ہیں کہ 'وہ ان کی نمبر ون اور نمبر ٹو تھیں۔ ایشلے ہم چاروں کے لیے ریڑھ کی ہڈی تھی۔ میں کہوں گی کہ وہ سب سے مضبوط، سب سے باہمت اور سب سے زیادہ متحرک تھی۔'

'وہ ہم سب کو جوڑے رکھتی، ہم سب ساتھ باہر جاتے، کام کرتے، اُسے کھونا بازو یا ٹانگ گنوا دینے جیسا ہے۔ وہ ہمارا حصہ تھی۔'

کرسٹی کو اب وہ فون کال یاد نہیں جس میں اُنھیں ایشلے کی موت کا پتا چلا تھا مگر اُنھیں یاد ہے کہ اُن کے گھٹنوں میں جان نہیں رہی تھی اور وہ فون پکڑے پکڑے زمین پر گر گئی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ 'میں وہاں نہیں جا سکتی تھی اور میں سوچ رہی تھی کہ وہ غلط بھی تو ہو سکتے ہیں۔'

اب اُنھیں لگتا ہے کہ ایشلے کے قتل کے بعد کے دنوں میں اُنھیں پہنچنے والے صدمے نے اُنھیں اس واقعے کے گھناؤنے پن سے محفوظ رکھنے میں مدد دی۔

وہ بتاتی ہیں کہ ایشلے کی موت کے بعد وہ کئی ہفتوں تک مستقل طور پر بے آرام رہتی تھیں۔ ایشلے کی آخری رسومات میں پہننے کے لیے کپڑے چننا بھی دل توڑ دینے والا لمحہ تھا۔

کرسٹی اور کین برطانیہ گئے تاکہ جیک کو سزا ہوتے دیکھ سکیں۔ اس کے بعد وہ برطانیہ میں ہر اس جگہ گئے جہاں ایشلے گئی تھیں۔

'اچھا ہے کہ وہ قید میں ہے مگر برطانیہ میں کینیڈا کی طرح عمر قید صرف 25 برس کی ہے لیکن بہرحال اب وہ تو واپس نہیں آئے گی۔'

کرسٹی کہتی ہیں کہ وہ اور ہیلی، ایشلے کی بنائی گئی ڈھیروں زندہ دل اور مزاحیہ ویڈیوز دیکھتی رہتی ہیں۔

'ہم بہت ہنستے ہیں، ہم بہت روتے بھی ہیں مگر یہ آسان نہیں کیونکہ یہ یادیں ہیں۔ ہم ان یادوں کو عزیز رکھیں گے مگر ہمارے پاس اب اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔'


بشکریہ بی بی سی اردو

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages