src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> پترکار وکاس فاونڈیشن کے زیر اہتمام اردو صحافت کا جشن کامیابی سے ہمکنار - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

پیر، 19 ستمبر، 2022

پترکار وکاس فاونڈیشن کے زیر اہتمام اردو صحافت کا جشن کامیابی سے ہمکنار

 

  
پترکار وکاس فاونڈیشن کے زیر اہتمام اردو صحافت کا جشن کامیابی سے ہمکنار


 اردو صحافت کی تاریخ ایک روشن تاریخ رہی ہے آج اگر حالات دگرگوں ہیں تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم نے کہاں غلطی کی ہے؟:جتن دیسائی




 ممبئی: ہندوستان میں اردو صحافت کو دو سو سال مکمل ہونے پر صحافیوں کی تنظیم پترکار وکاس فاونڈیشن نے ممبئی کے حج ہاوس میں یک روزہ سمینار کا انعقاد کیا۔’’اردو صحافت معاصرین کی نظر میں‘‘ کے عنوان سے منعقدہ اولین سیشن میں تنظیم کے صدر یوسف رانا نے غرض و غائیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ پورے ہندوستان میں اردو صحافت کادو سو سالہ جشن منایاجا رہاہے تو ممبئی کیوں پیچھے رہے ۔اس سیشن میں مراٹھی پترکار سنگھ کے صدر نریندر وابلے نے کہا کہ میں کبھی بھی خودکو اردووالوں سے الگ محسوس نہیں کیا۔اردوصحافت نے جد و جہد آزادی میں ایک بڑا کردار ادا کیا ہے۔بوہرہ فرقہ کی نمائندگی کرنے والے صادق ایدیزذہبی نے شہید صحافی مولوی باقر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ بوہرہ پیشوا سیدنا برہان الدین،سیدنا طاہر سیف الدین اور سیدنا مفضل کو اردو زبان سے شغف تھا اور تینوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے سچا مسلمان وہی ہے جس کی زبان اورہاتھ سے کسی دوسرے کو نقصان نہ پہنچے۔اردو صحافیوں کا بھی فرض ہے کہ وہ صحیح خبریں قارئین تک پہنچائیں۔انگریزی کی معروف صحافی جیوتی پنوانی نے اپنی تقریر میں کہا کہ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو اور انگریزی زبان کےجرنلسٹوں کے مابین ڈائیلاگ ہونا ضروری ہے۔ جب ہم ایک ہی پیشہ سے وابستہ ہیں تو ہمارے نظریات میں اختلافات کیوں۔ ممبئی فسادات ہوں یا مسلمانوں کی گرفتاریوں کا معاملہ انگریزی زبان کے صحافی صرف پولس کی بتائی ہوئی باتوں کو سچ گردانتے ہیں جبکہ اردوصحافت ا س سے اجتناب برتتی ہے۔نوبھارت کے انوراگ ترپاٹھی نے اس موقع پر کہا کہ پوری صحافی برادری دور حاضر میں مشکل دور سے گزر رہی ہے۔اردو صحافت کی حالت تو مزید ابتر ہے۔اس زبان کا جنم ہی شہادت سے ہوا ہے جبکہ دوسری زبانوں کے اخبارات کی نیو تجارت سے ہوئی۔ہم نے تو جرنلسٹوںکو ہمیشہ غریب ہی دیکھا ہے لیکن آج چینلوں سے منسلک اینکرس کروڑوں میں کھیل رہے ہیں۔




سیشن کے صدر گجراتی مڈے کے سابق ایڈٹرجتن دیسائی نے کہا کہ اردو صحافت کی تاریخ ایک روشن تاریخ رہی ہے آج اگر حالات دگرگوں ہیں تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم نے کہاں غلطی کی ہے؟ ہم اس کا ازالہ کر کستے ہیں۔اردو کا پہلا اخبار پنڈت ہری ہردت نے شروع کیا تھاماضی میں زیادہ تر اردواخبارات کے مالک ہندو ہواکرتے تھے کسی بھی زبان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔روزنامہ ایشیا ایکسپریس کے مدیر شارق نقشبندی نے کہا کہ اردو کا ماضی تابناک اور حال کربناک ہے۔ اردو اخبارات کے پرنٹ ایڈیشن اپنےوجود کی جنگ لڑ رہے ہیں اب ضروری ہے کہ ہم پرنٹ  ایڈشنوں کے ساتھ ساتھ ڈیجٹل ایڈیشن بھی شروع کریں۔اندو عرب سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر محمد علی پاٹنکر نے پرمغز تقریر میں کہا کہ جب ہمارے بچے اردو نہیں پڑھیںگے تو انہیں اپنی تہذیب و ثقافت سے آگاہی کیسے ہوگی؟’’اردو صحافت کا ماضی حال اور مستقبل کے عنوان سے منعقدہ دوسرے سیشن کے صدر راجیہ سبھا رکن ندیم الحق  (مدیر اخبار مشرق) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ زبان اردو کے بقا کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے ماحول اور گھر میں اردو کو زندہ رکھیں انگریزوں سے قبل ہندستان میں فارسی رائج تھی مگر اس وقت بھی سنسکرت اور ہندی والے باہر تو فارسی استعمال کرتے تھے مگر انہوں نے اپنے گھروں میں اپنی زبان کو زندہ رکھا تھا  سو ہمیں بھی یہ نسخہ کیمیا اپنانے کی ضرورت ہے ۔کووڈ کے بعد اردو اخبارات کے حالات ناساز ہوگئے ہیں  ان کی معاشی حالت سکڑتی جارہی ہے آمدنی کے ذرائع انتہائی محدود ہوگئے ہیں  ملک میں میں بہت سے افراد ہیں جو اردو سے محبت کا دعوٰ تو کرتے ہیں لیکن اس محبت کا اقرار نہیں کرتے ہم مغربی بنگال میں اردو کے فروغ کی کاوشوں میں مصروف ہیں  مغربی بنگال اردو اکیڈمی کے تحت یہاں ضرورت مندوں کو اسکالر شپ فراہم کی جارہی ہے اردو گھر تعمیر کیا گیا ہے یہاں ہم گزشتہ دس سال سے غیر اردو دانوں کو زبان اردو سکھا رہے ہیں  ویسے بھی اردو صحافت سے کلکتہ کا رشتہ پرانا ہے ۲۷،مارچ ۱۸۲۲ کو اردو کا سب سے پہلا اخبار جام جہاں نما کلکتہ سے ہی شائع ہوا تھا۔ مولانا آزاد نے بھی یہیں سے الہلال اور البلاغ شائع کیا تھا، آج صحافت پروفیشن سے تجارت کا رخ اختیار کر گئی ہے خود کو بچانے کے لئے کیا ہمیں بھی گودی میڈیا بننا پڑے گا! جناب حسن کمال اور جناب شاہد لطیف نے اردو زبان اور صحافت کی بقا کے لئے جو ڈیجیٹل جرنلزم کی جو راہ تجویز کی ہے اسی سے اردو والوں کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے ہمیں ترقی وترویج کے لئے یہ راستہ اختیار کرنا ہی ہوگا۔




اردو بلٹز،صحافت اور ہم آپ کے سابق ایڈیٹر حسن کمال نے اس موقع پر کہا کہ اردو صحافت کا ماضی نہایت شاندار،حال قدرے دھندلا اور مستقبل انتہائی تابناک ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ پرنٹ میڈیا اپنے وجود کے آخری دور میں ہے دو سال کے لاک ڈاؤن نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی،لوگوں نے اخبارات خریدنا بند کردیا  صرف وہی اخبارات اپنا وجود قائم رکھ سکے جو  ویب سائٹ پر دستیاب تھے۔اردو اخبارات کے لئے بڑی مشکل یہی ہے کہ کوئی بہتر اور مکمل اخبار کی اشاعت کے لئے  ماہانہ ۱۲،لاکھ روپے درکار ہوتے ہیں  اور اس مد میں اردو اخبارات کو معاشی مدد بھی دستیاب نہیں ہوتی  آج اردو کے وہی اخبار پھل پھول رہےہیں جن کا اپنا کوئی دوسرا میڈیا یونٹ بھی ہو اس کے اشتراک سے گاڑی آگے بڑھ رہی ہے،لیکن ڈیجیٹل میڈیامیں اخراجات کا تخمینہ انتہائی کم ہوجاتا ہے لہذا اب ہمیں اس سمت آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔مدیر انقلاب شاہد لطیف نے اپنے بصیرت افروز خطاب میں کہا کہ یہ فخر کا مقام ہے کہ اردو صحافت تیسری صدی میں داخل ہوچکی ہے۔یہ بڑا مقام ہے۔ان دو سو سال میں اردو کے ہزاروں اخبارات شائع ہوئے کسی اور زبان اتنی زرخیز تاریخ نہیں ملے گی اس تاریخی ورثہ کو زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم آئندہ دو سو سال تک اسے زندہ رکھنے کے لئے جتن کرتے رہیں۔آج کی صحافت الیکٹرانک اور ڈیجیٹل ہوگئی ہے ویب اور موبائل جرنلزم عام ہوگیا ہے ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ اردو زندہ رہے گی تو اردو صحافت بھی زندہ رہے گی!اردو کا دائرہ محدود ہورہا ہے اسے وسیع کرنے کے لئے توجہ اور فکر کی ضرورت ہے،خود تلقین کرنے کے بجائے ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں اردو کو برتنے کا چلن عام کریں۔اپنے گھر ،اداروں تنظیموں میں اپنی زبان کا استعمال کریں،۵۰؍سال قبل عصمت چغتائی نے کہا تھاکہ مستقبل میں اردو غریب مسلمانوں کی زبان بن جائے گی اب ہمیں یہ سوچنا چاہیے اسے امیر مسلمانوں تک کیسے پہنچایا جائے۔آج انگریزی کے چلن کے سبب صرف اردو ہی بلکہ ملک دیگر زبانیں بھی مشکلات کا شکار ہیں۔کوئی بات نہیں ماضی کی طرح ہمیں اپنی کوششوں اردو کو سب کی زبان بنانا ہوگا،ہمیں اردو کی بقا کے لئے جہاں سے کچھ حاصل ہوتا ہے اسی سمت اپنی توانائی صرف کرنا ہوگی،میں اردو کے مستقبل کے تعلق سے مایوس نہیں ہوں ،اب وقت آگیا ہے کہ ہم ریختہ کے طرز پر ایک پورٹل شروع کریں،ریختہ ادیبوں اور شاعروں کے لئے مختص ہے ہم صحافیوں کے لئے پورٹل قائم کریں۔اس سیمینار کے ناظم سرفراز آرزو نے بھی اردو صحافت کے مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلے ایک ٹن کاغذ۴۰،ہزار روپے میں دستیاب تھا اب اس کی قیمت ایک لاکھ روپے ہوگئی ہے ،اخبارات کی فروخت بھی کم ہوگئی ہے،جس سے اشاعت اثر انداز ہوئی ہے اب ہمیں آگے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئےہائبریٹ جرنلزم کی تگ و دو کرنا ہوگی انٹرنیٹ اورڈیجیٹل ایڈیشن شروع کرنا ہوگا۔


  


سماج وادی پارٹی کے رکن اسمبلی ابو عاصم اعظمی نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ زبان اردو ہم سے دور ہوتی جارہی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آج غریب مسلمانوں نے اردو کو زندہ رکھا ہے گوونڈی اور شیواجی نگر کے میونسپل اردو اسکولوں میں طلباء کے لئے جگہ نہیں مگر ساؤتھ ممبئی میں اردو  اسکولیں بند ہورہی ہیں۔جب تک اردو کو روزی روٹی سے نہیں جوڑا جائے گا اس وقت تک لوگ اردو سے وابستہ نہیں ہوں گے۔انہوں نے حسن کمال سے گزارش کی انہوں نے ڈیجیٹل اردو صحافت کا جو منصوبہ تیار کیا ہے اسے عمل میں لایا جائے اس مد میں ان سے جو بھی بن پڑے گا وہ قدم اٹھانے کے لئے تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کے لئے بہتر لوگوں کو شامل کیا جائے آج دیکھا یہ جارہا ہے کہ میڈیا حکومت کا غلام بن گیا ہے۔یک روزہ سمینار میںپترکار وکاس فاونڈیشن کے سرپرست اعلی سینئر صحافی خلیل زاہد،ماہم درگاہ کےٹرسٹی سہیل کھنڈوانی، صحافت کے ایڈیٹرہارون افروز، اورنگ آباد ہندوستان کے مدیر نایاب انصاری، جاویدجمال الدین، شرافت خان، سلیم ناگانی، نظام الدین راعین، سابق کارپوریٹر آفرین شیخ، عمر لکڑاوالا،رضیہ امیر، شیریں دلوی، سعدیہ مرچنٹ، مشیر انصاری، ڈونگری پولس انسپکٹر رتنا کھانڈیوال، سابق کارپوریٹر وقار قادری، حلیم صدیقی، مختار قریشی سر، وسیم سنجر، فوٹو گرافر امتیازشیخ، عارف انصاری، شاہدہ دربار، عبدالقیوم نعیمی،عذرا خانم، رما شرما، نعیم شیخ، صابر خرادی، ارشادالحسن، ڈاکٹر علاو الدین، ساجددیوان، تواب انصاری، اورنگ آبادٹائمزکے ایڈیٹر شعیب خسرو، اوراردو صحافت سے وابستہ متعدد صحافی موجودتھے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages