src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> آزادی کی ۷۵ ویں سالگرہ : کیا ہم اس سوال پر غور کرنے کو تیار ہیں ؟ - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

اتوار، 14 اگست، 2022

آزادی کی ۷۵ ویں سالگرہ : کیا ہم اس سوال پر غور کرنے کو تیار ہیں ؟

 



آزادی کی ۷۵ ویں سالگرہ : کیا ہم اس سوال پر غور کرنے کو تیار ہیں ؟


اتواریہ / شکیل رشید  ( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)


آزادی کی ۷۵ ویں سالگرہ پر ، جب ہم گھوم کر پیچھے نظریں دوڑاتے ہیں ، تو احساس ہوتا ہے ، کہ ملک کو ترقی کی انتہائی بلندیوں تک پہنچانے کے کتنے ہی مواقع ہم نے فرقہ پرستی ، توہم پرستی ، اقربا پرستی ، اور دھنّا سیٹھوں کی چاپلوسی میں ،گنوا دیے ہیں ۔ کوئی مانے نہ مانے لیکن حقیت یہی ہے کہ ملک جب آزاد ہوا تھا تب اسے چلانا آسان نہیں تھا ۔ انگریز ساری دولت لوٹ لے گیے تھے ۔ سونے کی چڑیا ہندوستان کا خزانہ خالی تھا ۔ تقسیم ہوتے ہی ملک انتہائی خوفناک فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں آ گیا تھا ، اِدھر سے جو ٹرینیں اُدھر جاتی اور اُدھر سے جو ٹرینیں اِدھر آتی تھیں وہ لاشوں سے پٹی ہوتی تھیں ، ملک کے دو ٹکڑوں نے دلوں کو بھی بانٹ دیا تھا ۔ اندازہ کریں کیا عالم رہا ہوگا ! لیکن ملک چلانے کی ذمہ داری جن کندھوں پر پڑی تھی وہ جھکے نہیں ، انہوں نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی اور ملک کو ایک پڑی پر ڈالا ، بینک دیے ، تعلیمی ادارے دیے ، بند بنوائے اور ایک ایسا نظام دیا جو اس ملک میں سب کو ہی منظور تھا ، جمہوری نظام ۔ یقیناً لوگوں کے ساتھ ناانصافیاں ہوئی ہیں ، بہت سے لوگ خود کو ٹھگا ہوا محسوس کرتے ہیں ، خاص کر مسلمان ، مگر یہ ذہن میں رہے کہ اس ملک میں اُس وقت مسلمانوں کے دینی اور مذہبی ادارے اور آثار سب ہی محفوظ رہے ، لوگ سفر تک میں آسانی کے ساتھ وقت آنے پر نمازیں پڑھ سکتے تھے ، لوگوں کی داڑھیاں اور ٹوپیاں اور ان کے کرتے پائجامے ان کے لیے خطرہ نہیں بنے تھے ۔ اگر آج  صورتِ حال ویسی ہی برقرار رہتی ، تو سب ہی مل کر اس ملک کو چاند پر پہنچا دیتے ، یہ ملک ترقی کی دوڑ میں نہ پچھڑتا ۔ لیکن ہوا یہ کہ ایک مہم شروع کردی گئی ، نفرت کی مہم ۔ اس مہم میں ایسا قطعی نہیں ہے کہ مسلمانوں نے آگ پر تیل ڈالنے کا کام نہیں کیا ، بالکل کیا ۔ نفرت کا جواب نفرت نہیں ہے لیکن کم لوگوں نے ، اس کا جواب محبت سے دیا ۔ دل جیتے جاتے ، اور آگے بڑھ کر انہیں ، جو نفرت کی زبان بول رہے تھے ، گلے لگایا جاتا تو شاید صورتِ حال آج کی طرح نہ ہوتی ۔ لیکن جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں ، ملک کو برباد کرنے میں فرقہ پرستی نے راست کوئی کردار ادا نہیں کیا ، اس کا استعمال کیا گیا ،اور یہ استعمال کٹر ہندوتوادی سوچ کے سیاست دانوں نے ، اپنے اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے کیا ۔ دیکھا دیکھی یہی کام ان سیاسی پارٹیوں نے بھی کیا جو خود کو جمہوری قدروں کی علمبردار قرار دیتی رہی تھیں ، بالخصوص سیکولر کہلانے والی سیاسی پارٹیوں اور ان پارٹیوں میں گھس پیٹھ کرنے والے فرقہ پرستوں نے ۔ لہٰذا اگر یہ کہا جائے تو شاید زیادہ صحیح ہوگا کہ ملک کی بربادی میں ، اس کی تنزلی میں اور اس کے پچھڑنے میں سب سے بڑا کردار سیاست کا تھا ۔ اور آج بھی سیاست ہی ہے جو ملک کو برباد کر رہی ہے ۔ فرقہ پرستی اس کا بس ایک آلہ ہے ۔ کیا کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ ملک کی آزادی کی تحریک میں سنگھ پریوار کا ، بی جے پی جس کا ایک حصہ ہے ، کوئی کردار رہا ہے؟ ’ کوئی کردار نہیں رہا ہے ‘، سوائے بھکتوں کی جھوٹی تاریخ کے ، اس سوال کا جواب ہر جگہ یہی ملے گا ۔ سب جانتے ہیں کہ اس ملک کو آزادی دلانے میں ، سوائے خالی چڈّی والوں کے ، تمام ہندوستانی شامل رہے ہیں ، تمام ہی سیاسی نظریات رکھنے والوں کی  شرکت رہی ہے ۔ لیکن آج یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں اس ملک پر صرف اور صرف بی جے پی کا ہی راج ہوگا ، باقی تمام سیاسی پارٹیاں ختم ہو جائیں گی ، صرف ایک ہی نظری رہے گا ۔ سب جانتے ہیں کہ اس راج کا مطلب صنعت کاروں کا راج ہوگا ۔ اس کا مطلب غیر جمہوری نظریات کا راج ہوگا ۔ اس کا مطلب ، آزادی سے پہلے اور آزادی کے وقت کے ، نظریات کا خاتمہ ہوگا ۔ اس کا مطلب ان تمام خوابوں کا خاتمہ ہوگا جو ہمارے بزرگوں نے آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے دیکھے تھے ، اور جسے حقیقت میں ڈھالنے کے لیے قربانیاں دی تھیں ۔ یقین تو یہی ہے کہ ایسا نہیں ہو سکے گا ، لیکن اگر ایسا ہو گیا ، فریب سے ، دھوکے سے یا جبر سے ، تو کیا ہوگا ؟ کیا اس سول پر غور کرنے کے لیے ، ملک کی آزادی کی اس ۷۵ ویں سالگرہ پر ، غور کرنے کے لیے ہم آپ اور سبھی تیار ہیں ؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages