src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> "موت کا اجازت نامہ" - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

اتوار، 7 اگست، 2022

"موت کا اجازت نامہ"




"موت کا اجازت نامہ" 



 ازقلم : آصفہ عنبرین قاضی



یہ کتبہ دیکھ کر ایک لمحے کے لیے انسان سُن ہوجاتا ہے ، ناتجربہ کار دائیوں کے ہاتھوں تو کتنی زندگیاں ضائع ہوتی تھیں ، لیکن بے رحم لیڈی ڈاکٹرز کی بھی کمی نہیں ۔ میں نے چار سال پہلے ایسا ہی ایک دلخراش منظر پر ائیویٹ ہاسپٹل میں دیکھا ، تین سالہ بچہ باپ کی انگلی تھامے ہسپتال کے کاریڈور میں کھڑا تھا ، وہ شخص کبھی اسے اٹھا کر کاونٹر سے دوائیاں لینے بھاگتا ، کبھی خون کی بوتلوں کے لیے بار بار کسی کو فون کرتا ، کبھی لیبر روم کے چکر لگاتا ۔ رات کو آپریشن ہوا تھا ، لیڈی ڈاکٹر نے دوران آپریشن پتا نہیں کیا غفلت دکھائی مریضہ کا خون ہی نہیں رک رہا تھا ، نومولود بچہ نرسری منتقل کر دیا گیا تھا ۔ 
ٹانکے دوبارہ کھولے گئے ، لیکن تب تاخیر ہوچکی تھی ، بتایا گیا کہ شاید غلطی سے کوئی vein کٹی یا کوئی اور ڈس آرڈر تھا لیکن جو بلڈ لگایا جا رہا تھا برابر نکل رہا تھا ، شام کو ہسپتال والوں نے حسب معمول جواب دے دیا ۔  اور سوا لاکھ کا بل شوہر کے ہاتھ تھمایا اور کہا جب تک بل ادا نہیں ہوگا ، مریضہ کو حوالے نہیں کریں گے ۔
لڑکی نیم جان ہو چکی تھی ، وہ مرد ہاتھ جوڑ رہا تھا اور کہہ رہا آپ میرا بچہ رکھ لیں مجھے بیوی کو لے جانے دیں ،اس کی جان بچ جائے، لیکن انتظامیہ نہ مانی ،کسی طرح بل کی ادائیگی کے بعد دوسرے ہسپتال منتقلی ممکن ہوئی ، تاخیر کی وجہ سے حالت مزید خراب ہوگئی اور رات نو بجے اس لڑکی کی موت واقع ہوگئی ۔ پیسے کی وجہ سے روکنے کی بجائے وہ مریضہ کو بروقت بڑے ہاسپٹل میں منتقل ہونے دیتے تو جان بچائی جاسکتی تھی ۔
دوسرے روز وہ نرسری سے اپنا بچہ لینے آئے تو وہی مرد بچے کو سینے سے لگائے دھاڑیں مار کر رو رہا تھا ، ہسپتال کا نظام معمول کے مطابق چل رہا تھا وہی لیڈی ڈاکٹر کسی اور خاتون کے آپریشن میں مصروف تھی ۔
نجانے کتنی معصوم زندگیاں اور کتنی خواتین ان سرٹیفائیڈ قصائیوں کے ہاتھوں زندگی ہار جاتی ہیں اور ہمارے پاس کوئی ایسا قانون نہیں جو کاروائی کرسکے ۔ نوٹوں کی گڈیاں وصول کرنے کے بعد بھی یہ کیس کی ضمانت نہیں دیتے ، اپنی غفلت سے ضائع ہونے والی جان کی بھی یہ پوری قیمت وصول کرتے ہیں ۔ انہوں نے نارمل کیس کو سی سیکشن میں ڈھالنا ہو اور من مانے پیسے وصول کرنے ہوں تو لیبر روم سے نکل لڑکی کے گھر والوں سے پوچھیں گے بتائیے کون سی جان بچانی ہے ؟ ماں بچا لیں یا بچہ ۔۔۔ آپریشن ہی واحد حل ہے۔ 
تب گھبرائے ہوئے ماں باپ اور شوہر ہاتھ جوڑ کر کہتے ہیں بھلے آپریشن کردیں لیکن دونوں کو بچا لیں۔ پھر پچیس ہزار کا بل ایموشنل بلیک میلنگ سے اڑھائی لاکھ تک بنا دیا جاتا ہے ۔ پیسہ تو پھر بھی آ جاتا ہے انسانی جان کیسے واپس آئے ؟ کسی کی بیوی جاتی ہے ، بچہ جاتا ہے ، پیسہ جاتا ہے ، گھر خالی ہوجاتا ہے ۔۔۔ پھر بھی ڈاکٹروں کی رعونت اور بے حسی میں کوئی کمی نہیں آتی ۔۔۔ آپ لاکھ احتجاج کریں ، رویں ، چیخیں چلائیں یا قا تل لیڈی ڈاکٹر کا گریبان پکڑیں وہ آپ کا دستخط شدہ پرچہ آپ کے سامنے لہرا دے گی جس میں آپ سے وہ لکھوا چکی کہ اس کے ہاتھوں جان بھی چلی جائے تو وہ ذمہ دار نہیں ۔۔۔ 

نجانے کتنے آنگن ہیں جن کے چاند اور چندا ان اناڑی ڈاکٹروں کے ہاتھوں گہنائے جاتے ہیں ۔

کیا یہاں کوئی ایسا قانون ہے کہ ہر بار قسمت کو دوش دینے کی بجائے کسی اناڑی ڈاکٹر کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جاسکے ؟؟ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages