src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> دو دن دو فیصلے۔۔۔۔ - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

اتوار، 20 مارچ، 2022

دو دن دو فیصلے۔۔۔۔



دو دن دو فیصلے۔۔۔۔


 تابش سحر


کرپان' وہ چھوٹا خنجر ہے جسے سکھ اپنے پاس رکھتے ہیں۔ یہ مذہبی شناخت ہے، دفاعی ہتھیار ہے، ظلم کے خلاف بغاوت کی علامت ہے۔ سفر ہو یا حضر، امن کی فضا ہو یا جنگ کا ماحول، کاشی متھرا ہو یا اجمیر و دلّی غرض ہر جگہ سکھ' کرپان سمیت قدم اٹھاتے ہیں۔ ہوائی اڈّے پر سیکیوریٹی کے پیشِ نظر کئی بندشیں اور پابندیاں عائد ہوتی ہیں انہیں بندشوں اور پابندیوں کی زد میں " کرپان" بھی آگیا تھا۔ جس پر سکھ برادری نے شدید احتجاج درج کروایا کہ یہ ہماری مذہبی شناخت کا معاملہ ہے کسی بھی صورت میں اس سے دست برداری اختیار نہیں کی جاسکتی بالآخر ۱۴ مارچ کو مرکزی حکومت نے کرپان پر عائد پابندی ہٹالی اور تمام سکھوں نے چین کی سانس لی۔ جس طرح سکھوں کے یہاں کرپان، یہودیوں کے یہاں ستارۂِ داؤدی، عیسائیوں کے یہاں صلیب مذہبی اہمیت رکھتے ہیں اس سے کئی گنا بڑھ کر مذہب اسلام میں خواتین کے لیے "حجاب و پردہ" خاص مقام و مرتبہ رکھتا ہے مگر افسوس کہ اگلے ہی دن ۱۵ مارچ کو کرناٹک ہائی کورٹ نے یہ عجیب و غریب فیصلہ سنایا کہ "حجاب' اسلام میں کوئی لازمی عمل نہیں ہے۔" لہذا اسکول کالجس میں وہاں کے اصول و قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوے حجاب پہننے کی اجازت نہ ہوگی۔ حجاب' حکمِ خداوندی ہے، شریعت کا حصہ ہے، پاکیزہ روایت ہے، حیا کی علامت ہے، فطرت کا تقاضہ ہے، شر سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔ اس پر کسی بھی طرح کی پابندی مسلمانوں کے ساتھ زیادتی اور ظلم ہے۔
دو دن کے اندر ایک ہی ملک میں ایک ہی نوعیت کے حامل معاملوں میں' دو الگ الگ فیصلے اپنے اندر عبرت کا سامان رکھتے ہیں۔
آزادی کے بعد سے ملک کا مسلمان' احساسِ کمتری کا شکار ہے، قوم کے قائدین بجائے قیادت کرنے کے دوسروں کی غلامی پر ابھارتے آئے ہیں، ہر ظلم پر صبر کی تلقین، ہر زیادتی پر سکوت کی تعلیم، ہر فساد کے بعد امن برقرار رکھنے کی اپیل ہمارے یہاں معمول کا حصہ ہے۔ برہمنوں کی دہشت گردی کا جواب امن و ایکتا کانفرینس، عدمِ تشدّد کے عنوان پر تقریر اور عدالت کی کارکردگی پر اندھے اعتماد کے ذریعہ دیا جاتا ہے۔ اس موقع پر علامہ اقبال کا یہی شعر ذہن میں آتا ہے کہ
"رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم
عصا نہ ہو تو کلیمیؑ ہے کار بے بنیاد"
برہمن کا طلسم' فقر و فاقے، اوراد و وظائف، چلّے کانفرینس اور جلوس وغیرہ جیسی سادھو سنتوں والی تدبیروں سے نہیں ٹوٹنے والا۔ مذہبی شناخت چھن جائے، مقاماتِ مقدّسہ منہدم کردیے جائیں اور احکاماتِ اسلامیہ کو مسلمانوں کے لیے کالعدم قرار دیا جائے اور مسلمان چین کی بانسری بجائے، قائدین' بجائے پیش قدمی کرنے کے محض صبر کا دامن تھام لے،  قوم کو جگانے اور سڑکوں پر لانے کے بجائے صرف صبر کی تلقین کرے اور حکومت کو للکارنے کے بجائے ظالموں سے انصاف کی امید لگائے تو مزید تباہی و بربادی کا انتظار کیجیے!


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages