src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> جمعہ/منگل میکے جانا کتنا ضروری؟ فوائد ونقصانات - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

جمعرات، 13 جنوری، 2022

جمعہ/منگل میکے جانا کتنا ضروری؟ فوائد ونقصانات


جمعہ/منگل میکے جانا کتنا ضروری؟ فوائد ونقصانات



تحریر : عبداللطیف سر (A.T.T.) 9270040608


غالباً ستر کی دہائی کی شروعات میں ڈاکٹر محمد ابراہیم (مقیم انگلستان )اپنی مادرِ علمی ATT ہائی اسکول میں تشریف لائے تھے ۔ ان کی آمد پر ایک استقبالیہ پروگرام کا انعقادکیا گیاتھا۔ پروگرام میں ڈاکٹر موصوف نےجہاں انگلستان کی ،وہاں کے ماحول کی اور وہاں کے لوگوں کی بہت ساری باتیں بیان کی،وہیں یہ بھی فرمایا کہ جب میں اپنے انگریز ساتھیوں اور دوستوں کو اپنے وطنِ عزیز کے بارے میں ،یہاں کے معاشرے اور لوگوں کے بارے میں بتاتاہوں،تو میرے انگریزدوست میری باتیں بڑی دلچسپی اور غور سے سنتے ہیں۔ جب میں ان سے کہتا ہوں کہ ہمارے شہر میں ایک ہی چھت کے نیچے ماں باپ ، بیٹے ، بیٹیاں، بہوویں اور ان کے بچے ایک ساتھ رہتے ہیںتو وہ بہت حیران ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے معاشرے میں ایک ہی خاندان کے ایک ساتھ رہنے کا تصور ہی ختم ہوچکا ہے۔ اور جب ان سے کہتا ہوں کہ ہمارے یہاں شادی شدہ لڑکیاں اپنے بچوں کو ساتھ لے کر اپنے والدین کے گھر پر جمعہ اور منگل کو ان سے ملنے جاتی ہیں اور وہیں پرآدھا دن گذارکر رات میں کھانا کھانےکے بعد اپنے گھر واپس آتی ہیں تو ان کے کھلے ہوئے منہ اور پھٹی ہوئی آنکھیں ان کی حیرانگی کو بیان کرتیں ہیں۔ ہم نے ۸۰ اور ۹۰ سال کے بزرگوں سے بھی پوچھا کہ یہ روایت شہرعزیز میں کب سے جاری ہے؟توتمام بزرگوں نےبتایا کہ وہ خود جب بچے تھے تو اپنی والدہ کے ساتھ نانا، نانی کے گھر جمعہ کو جایا کرتے تھے۔ 
شہر عزیز میں اترپردیش سے ہجرت کرکے آنےو الے انصاری برادری کی اکثریت ہے اور یہ لوگ اپنی ہی برادری میں شادی بیاہ کرنا پسند کرتے ہیں۔ اس لیے بیٹیوں کو والدین سے قریب تررہنے کا موقع مل جاتا ہےاور وہ ہرجمعہ اور منگل کو اپنے والدین سے ملنے میکے جاتی ہیں۔ 
جس طرح ہربات کے مثبت اور منفی پہلوہوتے ہیں ۔ اسی طرح اس قدیم روایات کےبھی کچھ باتیں بڑی مفید، کارآمد اور کچھ باتیں انتہائی نقصاندہ اور تکلیف دہ ہیں۔یہی معاملہ اس ہفت روزہ ملاقات کا بھی ہے۔ 
مثبت اور اچھی باتوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ میکے جانے پر ہم مکرم والدین سے ملاقات ، ان کا حال چال ، ان کی صحت کے بارے میں معلومات نیز ان کی خدمت بھی کرتے ہیں۔ بھائیوں ، بھابھیوں اور ان کے بچوں سے ملاقات ، ان کی خیرخیریت، بھائیوں سے کاروباری حالات اگر خراب ہوتو انہیں صبر اور تحمل کی تلقین، کچھ مفید مشورے، ان کےبچوں کی خبرگیری ، اسکول کی معلومات، بچوں کی تعلیم پرزیادہ سے زیادہ دھیان دینے کامشورہ، بھابھیوں سے والدین، بھائیوں اوربچوں کابہت زیادہ خیال رکھنے، گھر کو بہتر طورسے چلانے کی درخواست کے ساتھ ساتھ گھرہر طرح سے جھگڑے فساد سے پاک رکھنے کی تاکیدکرسکتے ہیں ۔ 
ہفتے میں دومرتبہ میکے جاکر زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی کوشش ، پکانے میں، کپڑے دھونے میں، گھر کی صاف صفائی میں، بھابھی کی مدد اور ان کے ساتھ بیٹھ کر سلیقہ سے بات چیت، ان کی باتوں کا احترام ، ان کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھنے والی بیٹیوں کی آمد باعث رحمت ہوتی ہے ۔ ایسی فراخدل اور مخلص لڑکیوں کے ایک ہفتہ نہ آنے پر گھرکے تمام افراد بے قرار اوربے چین ہواُٹھتے ہیں۔ 
اگر لڑکی اپنی سسرال کی کچھ تلخ باتیں اپنے والدین کے گوش وگذار کرتی ہے تو سمجھ دار والدین اسے صبر اور شکر کی تلقین کرتے ہیں اور سمجھاتے ہیں کہ خوش رہنا ہے تو اپنے سے کم تر لوگوں کے حالات کو دیکھو۔والدین اپنی بچیوں کو ساس، سسرنیز شوہر کے ساتھ صبر، انتہائی عزت اور احترام کے ساتھ رہنے کی ، ان کے تمام احکامات کو خوش دلی کے ساتھ پورا کرنے کی تاکید کرتے ہیں اور فرمانبردار لڑکیاں تمام تر تکالیف اٹھاکر اپنے والدین کی خواہش کااحترام کرتی ہیں۔ 
مذکورہ بالا تمام باتوں سے میکےجانا مفید معلوم ہوتی ہے۔لیکن موجودہ ماحول میں مثبت باتیں کم، نقصاندہ اور ایذارساں واقعات سماج میں زیادہ ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آج کل جمعہ/منگل کو کچھ گھرانوں میں بہنیں میکے میں جمع ہوتی ہیں تو سب سے پہلے گذشتہ وقت جہاں بات ختم ہوئی تھی۔ اس کے آگے کی بات کی جاتی ہے۔ ایک ایک سے Feed Backلیا جاتا ہے۔ نہ سمجھ اور جاہل والدین بھی شریک گفتگو ہوجاتے ہیں۔ جب ایسی محفل ہوتو شیطان شریک مجلس ہوجاتا ہے۔ اب بہنیں ایک دوسرے کو مکروفریب، عیب جوئی، بد گوئی، چغل خوری ، دروغ گوئی کے اسباق کے ساتھ ساتھ ساس اور سسر نیزشوہرِ نامدار کی نافرمانی، حکم عدولی، زیادہ سے زیادہ گھر میں تناؤ اور انتشار کا ماحول بنانے کا ہنر سکھاتی ہیں۔ کام نہ کرنے کا ، بچوں کو مارنے پیٹنے کا ، شوہر،ساس،سسر،نند اوردیورسے بات بات پر الجھ جانے کا ، زبان درازی کرنے کا، بیماری کا بہانہ بنانے کا، دانستہ طورسے بے ذائقہ کھاناپکانے کا، صاف صفائی نظرانداز کرنے کا، بے شمار اور انگنت طریقےہیں جوکچھ شادی شدہ لڑکیاں اپنے میکے میں جمعہ اور منگل کو درس لیتی ہیںاور جب وہ اپنے یادکیے ہوئے سبق کو سسرال میں جاکرعملی طورسے انجام دیتی ہیں جن کا تصور آپ کرسکتے ہیں کہ اس گھر کے افراد کتنی گٹھن، انتشار، کتنے ذہنی تناو، کرب اور بے چینی میں زندگی بسرکرتے ہوں گے۔ 
اسلام نے والدین کی اطاعت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کو جہاد فی سبیل اللہ پر مقدم رکھا ہے ۔ جتنے بھی حقوق العباد ہیں ان میں سب سے مقدم اور محترم والدین کاحق ہے کیونکہ انسان کے جتنے بھی رشتے اور تعلقات ہیں ان میں کچھ نہ کچھ مفاد مضمر ہوتے ہیں۔ شوہر بیوی کی محبت میں غرض، بھائی بھائی کی محبت میں غرض، دوست، دوست سے محبت کرے تو اس میں غرض ،لہٰذا دنیا میں ہمارے جو بھی آپسی رشتے اور تعلقات ہیں وہ کسی نہ کسی غرض اور مقصد پر منحصر ہوتے ہیں لیکن والدین کو اپنی اولاد سے محبت بالکل بے غرض ہوتی ہے ۔ اس لیے اللہ نے ان کے ساتھ حسن سلوک کااتنا اجر رکھا ہے کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگرکوئی شخص ایک مرتبہ اپنے والدین کو محبت کی نگاہ سے دیکھے تو اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ اس کو ایک حج اور عمرہ کے برابر ثواب عطا کرتے ہیں۔ 
مذکورہ بالا باتوں کی روشنی میں عقلمند اور دوراندیش بیٹیاں ہمیشہ اس بات کوپسند کریں گی کہ جب تک والدین بقید حیات ہیں وہ زیادہ سے زیادہ والدین کی زیارت کریں اور حج وعمرےکاثواب حاصل کرتی رہیں۔ ایسی سمجھدار بیٹیاں کبھی بھی اپنے بھائیوں اور ان کی بیویوں سے لڑائی جھگڑا کرنا پسند نہیں کریں گی ان کا صرف تو ایک مقصدہوگا کہ جب تک ماں باپ ہیں ان کے درواز ے ہمیشہ ان بچیوں کے لیے کھلے رہیں۔ 
دینی ماحول کی پروردہ ہماری بیٹیاں اپنے شوہر، ساس اور سسر کے احکامات اور خدمات کو مقدم رکھتی ہیں۔ وہ ہمیشہ اوّلیت اپنے سرتاج اور ان کے والدین کی خوشنودی کو دیتی ہیں۔ان کی مرضی کے بغیراپنے میکے جانے کی ضد بھی نہیں کرتی۔ اپنے سسرال کے ہرکام کو پہلے بجا لاتی ہے۔ ایسی دانشمند اور دین دار بیٹیوں کی عزت سسرال اور میکے میں یکساں ہوتی ہیں اور سسرال کے لوگ باخوشی اسے اپنے میکے جانے کی اجازت دیتے ہیں۔ ایسی ہی بیٹیوں سے خاندان کے سربراہ کا سر اونچارہتا ہے اور خاندان کا نام بھی روشن ہوتا ہے۔ 
حرف ِآخر! جہاں تک اصلاح ’سدھار‘ اتحاد واتفاق اورایک ساتھ مل جل کر رہنے کی بات ہے تو لڑکیوں کا میکے جانا ٹھیک ہے لیکن جہاں تک انتشار، پھوٹ ،جھگڑا،فساد،ایک دوسرے سے دوری کی بات ہوتو لڑکیوں ان سے بچنا چاہئے۔ 

11/1/2022

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages