مجلس عاملہ نے ایک اہم تجویز میں برسراقتدار پارٹی کی سرپرستی میں جاری منافرتی مہم اور سیاسی مفاد کے لیے مذہب کے غلط استعمال کو ملک سے سراسر دشمنی اور بغاوت قرار دیا۔تجویز میں کہا گیا ہے کہ”سیاسی اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے مذہب اور مذہبی علامتوں کا استحصال، ہماری ملکی سیاست کا انتہائی قابل مذمت مزاج بنتا جارہا ہے۔سیاست میں وقتی مفاد او رالیکشن میں ووٹ بٹورنے کے لیے اکثریتی طبقے کو خوش کرنااور جذباتی نعروں کے ذریعہ اس کی حمایت حاصل کرنا اور مسلمانوں اور ان کے حقیقی مطالبوں سے صرف نظر کرنا بھی اسی سیاسی ہتھکنڈے کا حصہ ہے۔“
مجلس عاملہ نے آگے تجویز میں مسلم دشمن عناصر کی سرکار کی حمایت اور حوصلہ افزائی پر سخت تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ”مسلمانوں کو برانگیختہ کرنے کے لیے شعائر اسلام، مساجد، نماز اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کی توہین کے واقعات روز بروز بڑھتے جارہے ہیں اور سرکار اور انتظامیہ کی طرف سے ایسے عناصر کی حمایت و حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کو اشتعال دلاکر انھیں دیوار سے لگانے اور الگ تھلگ کرنے کی کوشش طویل مدت سے جاری ہے۔ حالاں کہ مسلم اور اسلام دشمنی کے اعلانیہ او راجتماعی اظہارکے باعث عالمی سطح پر وطن عزیز کی بدنامی ہو رہی ہے اور اقوام عالم میں ہندستان کی متعصب، تنگ نظر، مذہبی انتہا پسندشبیہ بن رہی ہے، اس کی وجہ سے مختلف ممالک کے ساتھ ہمارے قدیمی تعلقات پر منفی اثرات پڑرہے ہیں اور بین الاقوامی پلیٹ فارم پر ہندستان مخالف عناصر کو اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے کا موقع مل رہا ہے۔“
”ایسی صورت حال میں ملک کی سالمیت اور ترقی کے حوالے سے جمعیۃ علماء ہند، برسر اقتدار پارٹی کو متوجہ کرنا چاہتی ہے کہ وہ فوری طور پر ایسے اقدامات اور پالیسیوں سے بازآئے جو کہ جمہوریت، انصاف اور مساوات کے تقاضوں کے خلاف ہیں،نیز صرف اور صرف مسلم اور اسلام دشمنی پر مبنی ہیں۔یہ بات ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ اکثریت کے مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرکے اپنے تسلط کو قائم رکھنا ملک کے ساتھ وفاداری اور محبت کے بجائے سراسر دشمنی اور بغاوت ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں