src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> سیرت کا پیغام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاہنے والوں کے نام - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

ہفتہ، 13 نومبر، 2021

سیرت کا پیغام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاہنے والوں کے نام




سیرت کا پیغام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاہنے والوں کے نام



تحریر :شفیع احمد قاسمی عفی عنہ خادم
 التدريس جامعہ ابن عباس احمد آباد گجرات


  آج بھی اگر کوئی زمانہ بھر میں محبوب بننا چاہتا ہے، زمانہ سے اپنی توقیر اور اعزاز و اکرام کرانا چاہتا ہے، اور کسی کی یہ چاہت اور خواہش ہے کہ لوگ ہم سے محبت و الفت رکھیں، اور ہمیں عزیز رکھیں، تو اس کیلئے اللہ کی یہ مقدس کتاب  پکار کر کہہ رہی ہے، قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی  یحببکم اللہ ، ترجمہ آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ کی محبت رکھتے ہو، تو میری اتباع کرو، اللہ تعالیٰ تمہیں اپنا محبوب بنا لیگا،
اس میں شبہ نہیں کہ محبت ایک مخفی چیز ہے، کس کو کس سے پیار و محبت ہے، اور کتنی مقدار میں ہے، اس کا پیمانہ بجز اس کے کوئی نہیں کہ حالات کے نشیب و فراز سے اس کا اندازہ لگایا جا ئے ، خصوصاً مشکل اور کٹھن وقت میں جانچا اور پرکھا جائے کہ وہ اپنے اس دعویٰ محبت میں کس قدر کھرا اور سچا ہے، یا صرف اس کے پاس کھوکھلا دعویٰ ہے،  
آیت شریفہ میں رب العالمین نے بہت صاف انداز میں اعلان کیا ہے، کہ جو کائنات کے خالق و مالک کا عزیز و محبوب بننا چاہتا ہے، اسے میرے محبوب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل اتباع کرنی چاہیے، اسے اپنی زندگی کے ہر شعبے میں محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اپنانی چاہیے، پیارے نبی کے کردار و اخلاق کو اپنے اندر جذب کرلینا چاہیے تا کہ خدا اسے اپنا محبوب بنالے ، اور جسے  خالقِ کائنات اپنا محبوب بنا لیتا ہے، تو دنیا بھر میں پھر اس کی محبت کا ڈھنڈورا پیٹ دیتا ہے اور لوگوں کے دل و دماغ میں اس کی محبت کوٹ کوٹ کر بھر دیتا ہے، 
   ع   وہ مجھ پہ چھا گئے میں زمانہ پہ چھا گیا،
جیسا کہ مسلم شریف کی روایت منقول ہے، کہ سیدنا حضرت ابو ھریرہ  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا عالی فرمان ہے کہ پروردگار عالم جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے، تو سید الملائکہ حضرت جبرئیل کو بلا کر کہتا ہے کہ میں فلان بندے سے  محبت کرتا ہوں ، لہذا تم بھی اس سے محبت کرو، پھر  حضرت جبرئیل اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، اور آسمان میں منادی کردیتے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو، حکم الہی کو سنتے ہی ساری آسمانی مخلوق اس سے محبت کرنے لگتی ہے،  اس کے بعد زمین والوں کے دلوں میں اس کی مقبولیت ڈال دی جاتی ہے، الخ  حدیث نمبر (1771)
اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کائنات کا ہر فرد اس سے اپنا لگاؤ اور تعلق محسوس کرنے لگتا ہے، اور لوگ اس کیلئے اپنی پلکوں کو بچھا دیتے ہیں ، اور یہی نہیں بلکہ مالک حقیقی کی طرف سے  لوگوں کے دل و دماغ میں اس درجہ اس کی فریفتگی و گرویدگی ڈال دی جاتی ہے کہ، لوگ اپنے دلوں تک کو اس کیلئے فرش راہ بنا دیتے ہیں، اس طرح سنت پر عمل کرنے والا دنیا بھر میں عزیز و محبوب بن جاتا ہے، اور یہ سب اعزاز رسول مکرم کی سنت پر عمل کرنے ہی کا ثمرہ اور نتیجہ ہوتا ہے، 
یہ بات نہ صرف قرآن و سنت سے ثابت ہے بلکہ تاریخ عالم سے بھی آفتاب نیم روز کی طرح نمایاں و آشکارا ہے، ہمیشہ اور ہر دور میں اہل اسلام کی عزت و تکریم، فلاح و نجات، کامرانی و سربلندی، کا مدار اپنے محبوب نبی کی سیرت اور ان کی پیش کردہ سنت و شریعت پر عمل کرنے میں پنہاں و مضمر رہا ہے، 
ہم اپنے لاڈلے حبیب کی سنت نہیں چھوڑ سکتے
  ذرا ہم دور صحابہ کا جائزہ لیں، اور یاد کریں، صلح حدیبیہ کا موقعہ ہے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی النورین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنا ایلچی اور قاصد بنا کر کفار مکہ کے پاس بھیجا ہے ، خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ میں اپنے چچازاد بھائی کے یہاں قیام کیا، صبح جب وہ سردار مکہ سے مذاکرات کیلئے جانے لگے، تو ان کا تہبند نصف پنڈلی تک تھا، چونکہ محبوب کبریا سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے ما أسفل من الکعبین من الازار فی النار  رواہ البخاری، اس حدیث پاک کے پیش نظر ٹخنے سے نیچے تہبند اور ازار لٹکانا ناجائز ہے، اور سرور کونین کا معمول اور آپ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ  ازار کو آدھی پنڈلی تک ہی رکھا کرتے تھے، البتہ ٹخنے سے اوپر تک حد جواز میں آتا ہے، اسلئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے نصف پنڈلی تک ہی ازار باندھا تھا، اس پر ان کے چچازاد بھائیوں نے حضرت عثمان سے کہا، میں آپ کے تہبند اور ازار کو نصف پنڈلی تک دیکھ رہا ہوں، آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ عربوں کا دستور یہ ہے کہ جو جتنا ٹخنے سے نیچے ازار و پاجامہ لٹکا تاہے وہ اتنا ہی بڑا اور سردار آدمی سمجھا جاتا ہے، لہذا آپ اپنا پائجامہ اور ازار ٹخنوں سے نیچے تک سرکا لیں، تاکہ ان کی نگاہ میں آپ کا اعزاز و اکرام باقی رہے، اور مجلس میں کی گئی بات چیت کی بھی عظمت ووقعت رہے، اس پر خلیفہ ثالث نے برجستہ جواب دیا کہ، لا؛ ھکذا ازارۃ صاحبنا صلی اللہ علیہ وسلم ، نہیں؛ اسی طرح ہمارے محبوب جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ازار رہتا ہے، لہذا ہم اپنے چہیتے اور لاڈلے حبیب کی سنت قطعاً نہیں چھوڑ سکتے، اور میں اپنا تہبند اس سے نیچے نہیں سرکا سکتا، خواہ یہ لوگ میری عزت و تکریم کریں یا توہین و تذلیل ، اور خواہ مجھے عزیز و محبوب رکھیں، یا مغبوض و ناپسند، مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے، 
سنت پر عمل کیلئے دنیا کی سپر پاور طاقت کے ساتھ مذاکرات کو ٹھکرا دیا 
صحابہ کرام کا سنت سے لگاؤ اور تعلق اس درجہ ٹھوس اور مستحکم تھا کہ، وہ کسی حال بھی ترک سنت کے روادار نہیں تھے، اور سنت پر عمل کے بدلے وہ بڑی سے بڑی قیمت چکانے کیلئے تیار ہوجاتے تھے، وہ سب کچھ چھوڑ سکتے تھے، لیکن اپنے محبوب نبی کی سیرت و سنت چھوڑنے پر راضی نہیں تھے،
شاہ ایران کسریٰ کے دربار کی طرف سے جب مذاکرات کی دعوت دی گئی، تو حضرت ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ بھی ایلچی بن کر گئے تھے، جب وہ دربار میں پہونچے، تو ایرانی دستور کے مطابق دیکھا کہ سارے درباری ہاتھ باندھے کھڑے ہیں، جبکہ شاہ ایران کسریٰ اپنی کرسی پر براجمان ہے، بڑی بے باکی و جرأت کے ساتھ حضرت ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ  نے کسریٰ سے مخاطب ہو کر فرمایا، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام اور ان کی تعلیمات و ہدایات کے پیروکار ہیں،نبی مکرم نے ہمیں اس بات سے منع کیا ہے کہ ایک آدمی کرسی پر بیٹھا ہو، اور سارے لوگ اس کے سامنے دست بستہ کھڑے ہو کر بات کریں، لہذا اس طرح ہم قطعاً مذاکرات نہیں کریں گے، اگر آپ حضرات ہمارے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، تو ہمارے لیے بھی کرسیاں منگوائی جائیں، یا پھر کسریٰ بھی ہمارے ساتھ کھڑے ہو کر بات چیت کرے، کسریٰ خلاف توقع اس جواب سے تلملا اٹھا اور جوش غضب سے مغلوب ہو کر فرمان جاری کیا کہ ، مجھے ان سے بات نہیں کرنی ہے، مٹی کا ایک بھرا ٹوکرا لاؤ، اور ان کے سر پر رکھ کر انہیں واپس کردو، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا، واپسی کے وقت حضرت ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ نے  شاہ ایران کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ سن لے کسریٰ؛ تو نے اپنی مٹی ہمیں دے دی ہے، اس کے بعد حضرت ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ وہاں سے چل نکلے، ایرانی قوم چونکہ انتہائی توہم پرست ہوتی ہے، ان لوگوں نے اس جملہ سے بد شگونی لی اور کہنے لگے، یہ تو بڑی بد فالی ہوگی، بادشاہ کو اس پر تنبہ ہوا، اس نے فوراً ان کے پیچھے آدمی دوڑایا، لیکن  حضرت وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے، اسلئے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کیلئے اس سر زمین کی فتح مقدر کر رکھی تھی،
غور کا مقام ہے کہ حضرت ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ اس وقت کے سپر پاور طاقت سے مذاکرات کیلئے گئے تھے، لیکن ایک ذرا بھی مرعوب نہیں ہوئے، اور انتہائی استغناء و بےپرواہی کے ساتھ یہ بتلا دیا کہ اگر تمہیں بات چیت کرنی ہو، تو ہم اپنے محبوب نبی کی سنت و شریعت اور سیرت و طریقہ کے مطابق ہی بات کریں گے، ورنہ ہمیں کوئی ضرورت نہیں، اور ظاہر ہے کہ کسریٰ نے نبی کی اس سنت کے مطابق بات کرنے میں اپنی تذلیل اور ہتک عزت تصور کیا تو ان پاکیزہ ہستیوں نے اپنے محبوب کی سنت کو گلے لگایا اور ان کے خود ساختہ طریقے کو اپنی جوتیوں کی نوک پر رکھ کر اسے ٹھکرا دیا، رضی اللہ عنہ ورضوا عنہم، 
ان احمقوں کی وجہ سے میں اپنے محبوب کی سنت ترک نہیں کرسکتا
  حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ نے جب ایران میں کسریٰ پر حملہ کیا، تو اس نے مذاکرات کے لئے آپ کو بھی مدعو کیا تھا، آپ وہاں تشریف لے گئے، تواضع میں انہوں نے آپ کے سامنے کھانا پیش کیا، آپ نے کھانا شروع کیا، اچانک ایک نوالہ ہاتھ سے گر گیا، آپ کو آقائے نامدار سید ابرار محبوب رب العالمین کی سنت یاد آگئی، کہ اگر کھانا تناول کرتے وقت کوئی لقمہ ہاتھ سے گر جائے تو اسے صاف کر کے کھالینا چاہیے، تاکہ مالک کے رزق کی بے توقیری لازم نہ آئے، اور اس وجہ سے بھی کہ خدا معلوم رزق کے کس حصے میں برکت رکھی گئی ہے، ایسے میں ہر نوالہ میں یہ احتمال موجود ہے کہ برکت اس میں ہے، پس کوئی لقمہ اگر گر جائے تو اسے صاف کر کے کھا لینا چاہیے، 
چنانچہ حضرت حذیفہ بن الیمان نے اپنا گرا ہوا  نوالہ اٹھانے کیلئے ہاتھ بڑھایا ، آپ کے بغل والے نے کہنی مار کر اشارہ کیا، جناب آپ یہ کام نہ کریں، آپ کو پتہ ہے؟ وقت کے سپر پاور طاقت کسریٰ کے دربار میں ہیں، اگر آپ نے یہ کیا تو آپ کی وقعت و عظمت ختم ہوجائے گی، رازدار رسول نے بلا خوف ملامت جو جواب دیا ہے، واقعی وہ سنہرے حروف سے لکھنے کے قابل ہے، آپ نے فرمایا، ااترک سنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لهؤلاء الحمقاء ؛ کیا میں ان احمقوں کی وجہ سے اپنے محبوب نبی کی سنت ترک کر دوں، یہ نہیں ہوسکتا، یہ ہمیں جو چاہیں سمجھیں، اور ہمیں ان کی عزت و تکریم کی کوئی پرواہ نہیں ہے، ان کوتاہ بینوں کو کیا پتہ ؟ کہ میرے محبوب کی سنت کی عظمت کیا ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ ان پاکیزہ نفوس نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دکھایا کہ اپنے خالق و مالک اور اپنے محبوب کو راضی کرنے کیلئے ہمیں دنیا والوں کے تبصروں کی ذرا پرواہ نہیں ہے، خواہ تبصرہ کرنے والا امیر و وزیر ہو یا شاہ و شہنشاہ ، اس کی مطلق پرواہ نہیں،لیکن اس وقت ہمارا حال اس سے بہت مختلف ہے، آج ہمیں اپنے نبی کی سنت کا بالکل پاس و لحاظ نہیں ہے، ہمارے نزدیک اس کی کوئی وقعت و عظمت نہیں رہی ہے، اجتماعی زندگی کو تو رہنے دیں، ذرا ہم اپنی خلوت و تنہائی کا جائزہ لے کر دیکھیں، کہ ہماری پرسنل اور نجی زندگی میں کس قدر سنتیں  پامال ہورہی ہیں، ہمارے نزدیک اپنے محبوب کی لائی ہوئی  سنت کی کتنی قدر و منزلت باقی رہی ہے، کہ اسے ہر دن ہم  اپنے ہاتھوں ہی روندتے ہیں اور ہمیں ذرا بھی اس کا دکھ نہیں ہوتا، اور اس پر ہمارا دل بھی نہیں کڑھتا، ہمارا حال تو یہ ہے کہ تنہائی میں کھانا تناول کرتے وقت بھی اگر کوئی نوالہ ہم سے گر جائے، تو اسے صاف کر کے کھانا گوارا نہیں کرتے، تو بھلا کسی عام دعوت میں ہم سے کیسے کوئی یہ تصور کرلے کہ ہم گرے ہوئے لقمہ کو صاف کر کے کھا لیں گے، چہ جائیکہ کسی امیر و وزیر کے یہاں کی خاص دعوت ہو، تو پھر اس کا دور دور تک تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے، اس وقت ہمیں اپنی مصنوعی اور بناوٹی عزت پر دھبہ آنے کا خیال آتا ہے اور ہم یہ سوچتے ہیں کہ لوگ ہمیں کیا کہیں گے، لوگوں کی نظر میں ہم ذلیل و رسوا ہوجائیں گے، تھوڑی دیر کی اس خیالی اور بناوٹی اعزاز کے حصول کے واسطے ہم اپنی دائمی و حقیقی عزت کا ستیاناس کردیتے ہیں، اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا کہ اپنے نبی کی لائی ہوئی شریعت کو ٹھکرا کر  ہم نے اپنا رشتہ کس سے توڑلیا ، اور مغربی کلچر و تہذیب کو گلے لگا کر اپنا تعلق کس سے جوڑلیا ، 
شیخ سعدی نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ 
بقول دشمن پیمان دوست بشکستی
  ببیں از کہ بریدی وبا کہ پیوستی 
اس پر ایک سوال ذہن میں آتا ہے اور وہ یہ کہ آخر اس دنیا میں کفار و مشرکین کو کیوں کر اس قدر ترقی ملتی ہے، جب کہ انہوں نے تو نبی اور رسول کا انکار کیا ہے، آخرت کے بھی وہ منکر ہیں ، پھر بھی ہم پر ہی حالات آتے ہیں، ان پر نہیں،تو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم اپنے کو ان پر قیاس نہیں کرسکتے ہیں، اسلئے کہ ہم کلمہ گو ہیں ہم نے تو اس کا اور اس کے بھیجے ہوئے رسول کا کلمہ پڑھا ہے، بن دیکھے اپنے پروردگار پر ایمان لایا ہے، اس کی کتابوں اور فرشتوں پر ایمان لایا ہے، لہذا اگر ہم نے کلمہ و ایمان کے تقاضوں پر عمل نہیں کیا، تو ہم پر مصیبتیں اور مشقتیں  آئیں گی، انہیں کوئی روک نہیں سکتا، اور رہے کفار و مشرکین تو یہ دنیا ان کے لئے جنت ہے، اگر کسی کافر نے کوئی بھلائی اور نیکی کی، یا کسی کے ساتھ اچھا سلوک کیا، تو اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ اسے اسی دنیا میں دے دیتا ہے، آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ملتا ہے،  اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے محبوب کی سنت پر عمل پیرا کردے،

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages