src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> برائی کا انجام برائی ہی ہوتا ہے - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

بدھ، 31 مارچ، 2021

برائی کا انجام برائی ہی ہوتا ہے


برائی کا انجام برائی ہی ہوتا ہے


ایک غلط قدم یا فیصلہ  کی تباہی اور بربادی لاتا ہے ؟ اتر پردیش کے ضلع امروہہ کے موضع بانکھیڑے کی رہنے والی شبنم سیفی کی پھانسی کی خبر  پورے بھارت کے اخباروں اور نیوز چینلوں اور سوشل میڈیا  میں  چھائ ہوئ ہے۔جو بھی پڑھتا ہے یا سنتا ہے حیران ہو جاتا ہے کہ ایک باشعور تعلیم یافتہ تدریسیت کے محترم اور معزز پیشے سے وابستہ شبنم نے واقعی یہ گناہ عظیم کیا ہے؟ خواتین حیرت زدہ ہیں کہ کیا  کوئی عورت اتنی سخت جان اور شقی القب بھی ہو سکتی ہے؟ کیا ایک رشتہ بنانے کے لئے اپنے سارے  رشتوں کےخون سے ہاتھ رنگنا محبت یا عشق جیسے مقدس جذبات کا قتل ہے انسانیت انسانیت کا قتل ہے ۔ کیا شبنم کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا سلیم سے ملنے کا شادی کرنے کا کیا کوئ مولوی نہیں تھا جو نکاح کراتا یا کوئی باشعور اور باحکمت انسان اس برادری یا خاندان میں نہیں تھا جو یا تو شبنم کو سمجھا دیتا یا اس کے والدین اور گھر والوں کو؟ حیرت ہے مسلم لڑکے غیر مسلم لڑکیوں سے شادی کر لیتے ہیں ۔ اب تو اچھے اچھے روایت کے پاسدار  گھرانوں کی بیٹیاں بھی غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ بھاگ جاتی ہیں یا ان کے ساتھ سات پھیرے لے لیتی ہیں ۔ مگر یوں قتل عام نہیں ہوتا ۔ایک نہ دو سات قتل جس میں والد والدہ بھائی بہن بھابھی اور بھتیجی  جو معصوم صرف ایک سال کا شیر خوار تھا کیا عشق انسان کی عقل کھا جاتا ہے، یا  پاگل کر دیتا ہے؟ ایسے  عشق سے ہر ذی شعور کو پناہ مانگنی چاہیے کہ ایک عورت جو اپنی محبت کو پانے کے لئے اپنے اپنوں کو اس بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتروادے ؟ میں کئی روز سے مسلسل یہ سوچ رہی ہوں کہ کیا جس شعبئہ پولس نے شبنم کو گرفتار کیا اور اس سے جرم کا اقبال کروایا کیا ان کی ایمانداری پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے؟ پولس کا کردار ہمیشہ نہیں تو اکثر داغدار اور مشکوک ہی رہا ہے ۔ ہم سب نے پولس کی بربریت کی ہزاروں مثالیں دیکھی اور سنی ہیں ۔ عدالتیں بھی جھوٹے گواہوں اور  ثبوتوں کی بنیاد پر سزا سنا دیتی ہیں ۔ اور ان کے کتنے فیصلے  واقعی مجرم کو سزا دیتے ہیں؟ ملزم کو مجرم بنانے میں قابل قانون دانوں  کا بھی بڑا ہاتھ ہوتا ہے ۔ چاہے وہ گواہ اور ثبوت جھوٹے ہی کیوں نہ ہوں۔ کیا شبنم کے پاس سلیم کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنے کا کوئی شرعی اور قانونی راستہ نہیں تھا ؟ وہ تعلیم یافتہ تھی باشعور  بھی تھی وہ اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں کو چھوڑ کر بھارت  کے کسی بھی گاؤں یا شہر میں جاکر اپنی نئی زندگی شروع کر سکتی تھی ۔مجھے یہ بات سمجھ میں بالکل نہیں آرہی ہےکہ شبنم نے اپنی زندگی ،اپنا دین، اپنی دنیا کیوں تباہ کی ؟ کیا شبنم کو نہیں معلوم تھا کہ قانون کی دیوی اندھی ہوتی ہے مگر قانون کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں ۔ اگر واقعی شبنم نے اپنے گھر والوں کا اس بے دردی سے خون کیا ہے تو اسے ایسی ہی سزا ملنی چاہئے ۔ بلکہ قانون میں اس سے سخت سزا ہونی چاہیے کہ جس طرح سے قاتل نے اپنے ہی خون کے رشتوں  کو کلہاڑی سے کاٹ کاٹ  کر اذیت ناک موت دی اس  کو بھی ایسی  ہی اذیت ناک موت ملنی چاہیے , مگر مجھے جانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ شبنم ایسی شقی القب نہیں ہوسکتی ۔ اپنے والدین  بھائیوں بہنوں بھابھی ننھے  معصوم بھتیجے کو بھی بے رحمی مار ڈالنا کیا آسان اور عام عمل ہے ؟  کہیں وہ کسی خونی  سازش کاشکار تو نہیں بنادی گئی ؟ خدا نخواستہ  میرے قارئین یہ نہ سمجھیں میں مجرم یا گنہگار کے ساتھ ہوں ۔ نہیں ہر گز ہرگز ایسا نہیں ہے , مگر عقل حیران ہے ۔ آخر شبنم کو کیا ملا؟  قانون شبنم کو تو پھانسی چڑھا دےگا مگر اسے جرم کی طرف لے جانے والے جھوٹی انا  بے جا عزت و غیرت اور نام نہاد اصول بنانے والے لوگوں کو کون سزا دےگا؟ ہمارا اسلام نہ ہی کٹر  نہ ہی ظالم ،  نہ شریعت میں اس طرح کی پابندی کہ ایک بالغ لڑکی اپنی مرضی سے شادی نہیں کر سکتی ۔ لڑکی کو پسند ناپسند کا حق ہے ۔ دوسری اہم بات مسلک ، برادری ذات پات رنگ نسل اور تعلیم  عمر امیری غریبی کی بناء پر کسی لڑکی یا لڑکے کو ٹھکرانے کا کوئی شرعی حکم قران میں ہے ؟ مجھ کم عقل اور جاہل نے جو کچھ بھی پڑھا ہے اس سے یہی معلوم ہوا کہ ہمارے پیارے نبی سردار الانبیاء خاتم النبین صلی اللہ علیہ نے جب پہلا نکاح کیا تو آﷺ کی عمر مبارک صرف 25 سال تھی حضرت خدیجہ الکبری ؓ کی عمر چالیس سال تھی یعنی پندرہ برس کا فرق تھا  آج معاشرے میں لڑکا پندرہ کیا بیس برس بھی بڑا ہو تو کوئی مضائقہ نہیں مگر  لڑکی پانچ برس  بھی بڑی  ہو تو خاندان  برادری  اور سماج میں ساری زندگی اس عورت کی تذلیل و تضحیک کی جاتی ہے ۔  آپ طلاق شدہ بھی تھیں اور آپؓ  بیوہ بھی ہوچکی تھیں ۔ آج یتیم اور بیوہ  کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے؟ یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں ۔ ذرا سوچیں سردار النبیا کا پہلا  نکاح پندرہ سال بڑی خاتون جو بیوہ ہوچکی تھیں ،اور طلاق شدہ بھی تھیں ان سے  کیوں ہوا ؟ کیا آپﷺ کو لڑکیوں کی کمی تھی نہیں بلکہ یہ اس امت کے  لئے مشعل راہ بنانا تھا کہ بیوہ اور بڑی عمر کی عورت سے نکاح کر لینا نہ جرم ہے نہ گناہ ۔ آپ نے حضرت عائشہ سے شادی کی تو تقریبا آپ کی عمر پچاس برس کے اوپر تھی اور عائشہ ؓ تقریبا چھ سال کی تھیں یہ بھی جرم اور گناہ نہیں آپﷺ امی بھی تھے یہ ہر مسلمان جانتا ہے یعنی آپ کسی مدرسہ یا اسکول نہیں گئے اور کسی استاد نے آپ کو نہیں پڑھایا مگر پھر بھی اللہ نے سب سے افضل نبی آپ کو بنایا یعنی انسان کا دنیا کے مدرسہ یا اسکولوں  سے  سند یافتہ ہونا ضروری نہیں اچھا انسان ہونا ضروری ہے اور مومن ہونا بھی ضروری ہے ۔ لڑکی کی طرف سے بھی نکاح کا پیغام آجائے تو معیوب نہیں کیونکہ حضرت خدیجہ نے اپنے نکاح کا پیغام خود بھجوایا تھا ۔ حضرت بلال حبشی تھے یعنی بالکل سیاح مگر ایمان کی روشنی اور اللہ اور رسول کی محبت نے ان کو مرتبہ دیا کیا ہمارے لئے مثال نہیں ۔ اللہ سورہ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے کہ مرد مومن  عورتوں  سے نکاح کریں خواہ وہ غلام ہی ہوں اور مومن عورتیں مومن مردوں سے نکاح کریں خواہ وہ غلام ہی ہوں ۔ مومن کی تشریح ایمان والا ہے پھر یہ ذات پات رنگ نسل  مسلک بریلوی دیوبندی جماعتی تبلیغی وہابی  خان صدیقی منصوری سیفی انصاری کے ٹکڑوں میں بانٹ کر اپنے اسلام کو کیوں کمزور کرتے ہیں؟ اگر بنیاد سے دین کی تعلیم نہیں دی جائے گی , ماں باپ کے حقوق اور اسلام کے بنیادی ارکان  اور شرعی علوم کو عام نہیں کیا جائے گا سنت نبوی کو مشعل راہ نہیں بنایا جائے گا تب تک نہ ظلم کم ہوگا نہ جرم ۔ ہم ایک بیمار معاشرے میں جی رہے ہیں لوگ زنا کو پسند کرتے ہیں مگر نکاح کو ناپسند کیوں؟ کیونکہ   نکاح کے بعد وہ اس عورت کے حقوق کا پابند ہوجاتا ہے اس کے فرائض بڑھ جاتے ہیں رشتوں کا  پابند ہوجاتا ہے ۔ میری دست بستہ گزارش ہے اپنے تمام قارئین سے ان تمام والدین سے ان علماؤں سے ان بیٹوں اور بیٹیوں سے خدا کے لئے  اپنی زندگی کو آسان بنائیں مشکل نہیں قرآن اور حدیث کو  اپنی زندگی کا رہنما بنائیں ۔ قتل اور خون کی اینٹوں  سے  کبھی محبت کی عمارت تعمیر نہیں ہو سکتی ۔ برائی کا انجام برائی ہوتا ہے ۔ سماج کو صحت مند بنانے کی ذمہ داری ہم سب کی ہے ۔ شبنم کی  پھانسی کی  تاریخ بننے جارہی ہے ۔ افسوس  ہے کہ یہ جرم ایک عورت جو وفا کی مورت کہلاتی ہے جو ممتا اور محبت کی مثالیں قائم کرتی آئی ہے جو زندہ جلتی اور زندہ دفن ہوتی آئی ہے ۔ محبت مرنا اور مٹنا سکھاتی  ہے مارنا نہیں ۔ وہ اتنی شقی القب کیسے بن گئی ؟  لوگ ہمیشہ یاد رکھیں گے آزاد  بھارت اور جمہوری ہندوستان  میں کسی خاتون کو پہلی  پھانسی کی سزا ہے ۔ ہمارے بچوں کو اگر سدھرنے کی ضرورت ہے تو ہمارے بزرگوں کو بھی اپنے آپ کو سدھارنے کی ضرورت ہے ۔ سچی بات کہنے کے لئے معافی چاہتی ہوں مگر ظلم اور جبر کی کوکھ سے جرم اور احتجاج ہی جنم لیتے ہیں  ۔ میانہ روی اختیار کریں ۔شدت یا زیادتی  نقصان دہ  ہوتی ہے ۔

                           ڈاکٹر کہکشاں عرفان الہ آباد

Dr.Kahkashanirfan1980@gmail.com 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages