src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> آج بڑا قبرستان بم بلاسٹ کو 14 سال مکمل , ڈیڑھ دہائی گزرنے کے بعد انصاف منظر نامے سے غائب! بم بلاسٹ کے مقام پر بےگناہوں کے گرم لہو کا چشمہ آج بھی جاری ہے!!! ‏ - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

اتوار، 28 مارچ، 2021

آج بڑا قبرستان بم بلاسٹ کو 14 سال مکمل , ڈیڑھ دہائی گزرنے کے بعد انصاف منظر نامے سے غائب! بم بلاسٹ کے مقام پر بےگناہوں کے گرم لہو کا چشمہ آج بھی جاری ہے!!! ‏

شب برات اسیشل


بڑا قبرستان مالیگاؤں میں بم دھماکے کے بعد کا منظر 


آج بڑا قبرستان بم بلاسٹ کو 14 سال مکمل , 

ڈیڑھ دہائی گزرنے کے بعد بھی  انصاف منظر نامے سے غائب! 

  بم بلاسٹ کے مقام پر بےگناہوں کے گرم لہو کا چشمہ آج بھی جاری ہے!!!  


                خیال اثر مالیگانوی 

آج ہی کا دن تھا...... ہاں آج ہی کا دن تھا جب شہر کے طویل رقبہ پر پھیلے ہوئے بڑا قبرستان میں سلسلہ وار  بم دھماکوں کی گونج شہر کے دور دراز علاقوں تک سنائی دی تھی ساتھ ہی اس بم دھماکہ میں شہید ہونے والے معصوم سے لے کر جوان العمر اور ضعیف افراد کے بےگناہ خون سے قبرستان میں موجود جنازہ ہال کا وہ برآمدہ جہاں سجدوں کے نشانات ثبت ہوا کرتے تھے لہولہان ہو گیا تھا تو مجروحین کے کٹے پھٹے اعضاء کسی مقتل کا نظارہ پیش کررہے تھے. اس سلسلے کی دوسری کڑی مشاورت چوک میں بھی انجام دی گئی. یہاں بھی بکھرا ہوا خون اور تڑپتے ہوئے مجروحین کو دیکھ کر یہ گمان ہوتا تھا کہ ہم کسی مذبح خانے میں پہنچ گئے ہیں. دونوں مقامات پر ہنگام صف آرائی کالہولہومنظرتھا. پورے شہر پر ایسا ہو کا عالم طاری تھا جیسے سانپ سونگھ گیا ہو. سینکڑوں افراد آنأ فانأ شہادت کا درجہ پاتے ہوئے موت کی آغوش میں پہنچ گئے. کسی کے سر سے سایہ عاطفت اٹھ گیا تو کسی کے سرکا تاج بم دھماکہ نوچ لے گیا. کسی کے بڑھاپے کا سہارا ابدی نیند میں جا سویا تو کسی گھر کا چراغ بجھا دیا گیا. 
پورا مالیگاؤں شہر سائیں سائیں کررہا تھا. اس ہو کے عالم میں پولیس اور ایمبولنس گاڑیاں اپنا سائرن پر شور آوازوں میں  بجاتے ہوئے لوگوں کے دلوں میں ڈر اور خوف کا ماحول پیدا کرنے کا سبب بن رہی تھیں. قبرستان اور مشاورت چوک کے حالات اتنے دگر گوں تھے کہ بکھری ہوئی لاشیں اور چتھڑا چتھڑاہوئی انسانیت کو دیکھ کر پتھر سے پتھر دل انسان بھی رونے پر مجبور ہو گیا تھا. حالانکہ سڑکوں کی زبان چلاتی رہی کہ "یہ کس کا لہو ہے کون مرا "مگر سڑکوں کی یہ آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہوئی بلند بالا ایوانوں سے واپس پلٹ آئی لیکن یہ گونج دار آواز صدا بہ صحرا بن کر جب واپس لوٹی تو مالیگاؤں کے ہی 9 اعلی تعلیم یافتہ بے گناہ مسلم نوجوانوں کو بم دھماکہ کے الزام میں گرفتار کر لے گئی. اس وقت کے اے ٹی ایس چیف پی کے رگھوونشی نے حتی الامکان یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ شب برات کے موقع پر قبرستان اور مشاورت چوک میں سلسلہ وار بم دھماکہ کرنے والے یہی مسلم نوجوان ہیں. اس شدت پسند اے ٹی ایس چیف پی کے رگھوونشی کا ساتھ  خصوصی طور پر نامزد کردہ مالیگاؤں اے ایس پی راج وردھن نے بھی بخوبی دیا تھا. شہر کے 9 بے گناہ مسلم نوجوان برسہا برس تک قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے رہے. قید کے دوران ان 9 بے گناہ مسلم نوجوانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے تو ہر طرح کی مالی لالچ بھی دی گئ  کہ وہ بم دھماکوں کا الزام قبول کر لیں لیکن ہزار ظلم سہنے کے بعد بھی ان راسخ العقیدہ مسلم نوجوانوں کے پائے استقلال میں کہیں کوئی لرزش نہیں آئی. 
اس درمیانی عرصہ میں شہر کے چوک چوراہوں پر بحث بازی بھی ہوتی رہی. کوئی انھیں ہی مجرم گردان کر سارا الزام رکھ رہا تھا تو کوئی یہ جواز پیش کررہا تھا کہ کوئی بھی مسلمان اتنے ذلیل فعل کا مرتکب نہیں ہو سکتا کہ وہ قبرستان یا کسی معبد حق میں بم دھماکہ کرتے ہوئے نمازیوں کو خاک و خون میں ملا دے. بم دھماکہ کے بعد آہ و بکاہ کا وہ بازار گرم ہوا کہ جو بھی سنتا اور دیکھتا وہ رونے پر مجبور ہو جاتا تھا. شہر کی گلیوں  گلیوں میں سناٹا چیخ رہا تھا.شہر کے سرکاری دوا خانے اور مہنگے ترین پرائیوٹ اسپتال زخمیوں سے بھرے پڑے تھے. زخمیوں کے لئے درکار ضروری خون مہیا کرنے کے لئے شہر کے بلڈ ڈونر گروپ نے خون کا حصول انتہائی آسان کرتے ہوئے دوا خانوں کے باہر خون دینے والے افراد کی قطاریں لگا دی تھیں. زخمیوں کو کوئی اپنے ہاتھوں پر لئے دوا خانوں تک پہنچا رہا تھا تو کوئی ٹھیلا گاڑیوں پر لےکر اسپتال کی جانب دوڑ رہا تھا. قبرستان میں منظر اتنا دلدوز تھا کہ گورکن کی کمی کا احساس شدید تر ہو گیا تھا. یکے بعد دیگرے جنازوں کے جلوس قبرستان کی جانب رواں دواں دکھائی دیتے تھے. ہر آنکھ اشکبار تھی تو دل لہو رونےپرمجبورہوگیا تھا. ہندوستان میں پولیس آفیسران کی سنگ دلی اور بے رحمی مشہور ہے لیکن بم دھماکوں کے مناظر دیکھ کر اس وقت کے ایس پی انل کمبھارے سلیمانی چوک پر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے تھے. بڑا قبرستان حمیدیہ مسجد اور جنازہ ہال کا دالان بالکل کسی جنگ کا منظر پیش کررہا تھا. ہر جاہ خون ہی خون بکھرا ہوا تھا یا پھر کٹے پھٹے ہوئے انسانی اعضاءبکھرےہوےتھے. یہ خونی منظر آج 14 سال بعد بھی اپنی ساری ہولناکی سمیت آنکھوں آنکھوں زندہ ہیں. اگر شہر ان خونی مناظر کو بھولنا بھی چاہے تو نہیں بھول سکتا کیونکہ ان بم دھماکوں نے شہر سے انتہائی قیمتی جانیں چھین لی تھیں اور رہے بم دھماکوں کے الزام میں گرفتار شدہ وہ 9 بے گناہ مسلم ملزمین تو ان کی باعزت رہائی 11سال کے  بعد ہو  گئی لیکن زخم آج بھی تازہ ہیں. بے گناہوں کا بہتا ہوا لہو آج بھی پکار رہا ہے کہ ان بم دھماکوں کا ماخذ اور اصل ذمہ دار کون تھا. وہ کب اور کیونکر قانون کی گرفت میں آتے ہوئے اپنے جرم کی سزا پائے گا. زخم زخم بدن سے بہتا ہوا لہو قانون و عدلیہ کو ملتجی نظروں سے دیکھ اور پوچھ رہا ہے کہ کیا ہمارے مجروح جسموں سے بہتے ہوئے بے گناہ لہو کا کوئی مرہم ان کے پاس نہیں ہے.جن کے گھروں کے روشن چراغ بجھ گئے ان گھروں کی تاریکی دور کرنے کے لئے کیا کوئی آفتاب نہیں اترے گا. جن کے سروں کے تاج ان بم دھماکوں نے چھین لیا کیا ان کی مانگیں یوں ہی بے رنگ و اجاڑ رہیں گی. آج چونکہ شب برات پھر چلی آئی ہے اور وہی ساری خوں ریز کہانیاں سمیٹ لائی ہیں جو پچھلے 14 سالوں سے ہمارے ذہن و دل پر کچوکے لگاتی رہی ہے. آج بھی بڑا قبرستان اور مشاورت چوک کی زمینوں پر بہتا ہوا بے گناہوں کا لہو قانون و عدلیہ پر کسی زہریلے کی ناگ کی طرح لہراتے ہوئے پوچھ رہا ہے کہ کہاں ہیں وہ اسکاٹ لینڈ کو شرماتی ہوئی پولیس جو کسی جرم کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے ہی مجرمین کی گرفتاری کا دعوی پیش کرتی رہی ہے.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages