خواجہ یونس قتل معاملہ
قتل میں ملوث چار پولس والوں کی ملازمت پر بحالی کے خلاف داخل پٹیشن پر کل سماعت متوقع
کی ملازمت پر بحالی کے ممبئی پولس کمشنر کے خصوصی حکم (آرڈر) کو چیلنج کرنے والی خواجہ یونس کی والد ہ کی جانب سے داخل سول رٹ پٹیشن پرکل یعنی کے 26 فروری کو ممبئی ہائی کورٹ میں سماعت متوقع ہے۔ اس سے قبل کی سماعت پر سینئر ایڈوکیٹ مہر دیسائی نے عدالت کو بتایا تھاکہ خواجہ یونس کے قتل میں ملوث چاروں پولس والوں کی ملازمت پر بحالی پر اعتراض کرنے کا حق خواجہ یونس کی والد ہ آسیہ بیگم کو ہے جس نے ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کی ہے۔
واضح رہے کہ پچھلی سماعت پر ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ نے سوال پوچھا تھا کہ چار وں پولس والوں کی ملازمت پر بحالی سے خواجہ یونس کی والدہ کو کیا فرق پڑتا ہے جس کے جواب میں سینئر وکیل مہر دیسائی نے جسٹس اے اے سید اور جسٹس مادھو جامدار کو بتایا تھا کہ ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود ممبئی پولس کمشنر نے چاروں پولس والوں کو بحال کرکے ہائی کورٹ کے حکم کی توہین کی ہے اور قانون کی دھجیاں اڑائی ہیں۔کل یعنی کے 26 فروری کو ممبئی ہائیکورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس کے کے تاتیڑ اور جسٹس ریاض چاگلا کے روبرو سماعت ہوسکتی ہے۔
اس ضمن میں جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے کہا کہ جمعیۃ علماء نے خواجہ یونس کی والد کیجانب سے ممبئی پولس کمشنر کے فیصلہ کو ممبئی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے ا س سے قبل جمعیۃ علماء نے ممبئی پولس کمشنر کے خلاف ممبئی ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی عرضداشت بھی داخل کی تھی جو زیر سماعت ہے۔
گلزار اعظمی نے بتایا کہ خوجہ یونس کی والدہ آسیہ بیگم کی جانب سے داخل کردہ سول رٹ پٹیشن میں پولس کمشنر آف ممبئی پرم ویر سنگھ کے علاوہ چاروں پولس والوں کو بھی فریق بنایاگیا ہے، پٹیشن میں درج ہیکہ ممبئی پولس کمشنر کا چاروں پولس والوں کی معطلی کو ختم کرکے انہیں دوبارہ ملازمت پر بحال کرنے کا فیصلہ غیر قانونی ہے لہذا ہائی کورٹ کو اسے کالعدم قراردینا چاہئے کیونکہ پولس کمشنر کویہ اختیار ہی نہیں ہے۔
واضح رہے کہ ممبئی گھاٹکوپر بم دھماکہ معاملے میں ماخوذ کیئے گئے پربھنی کے ملزم خواجہ یونس (سافٹ وئیر انجینئر)کی پولس حراست میں ہوئی موت کے ذمہ دار پولس والوں کو سی آئی ڈی کی تحقیقات کے بعد ملازمت سے معطل کردیا گیا تھا لیکن 6 / جون2020 کو ان پولس والوں کو ملازمت پر بحال کردیاگیاجس کے خلاف خواجہ یونس کی والدہ کی جانب سے جمعیۃ علماء کے توسط سے ممبئی پولس کمشنر پرم ویر سنگھ اور ہوم ڈپارٹمنٹ کو توہین عدالت کانوٹس بھیجا گیا تھا نوٹس کا جواب پولس کمشنر کی جانب سے موصول نہ ہونے پر ممبئی ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی پٹیشن اور سول رٹ پٹیشن داخل کی گئی تھی جو زیر سماعت ہے۔
گلزار اعظمی نے مزید بتایا کہ 2004 میں ممبئی ہائی کورٹ نے حکم دیا تھاکہ خواجہ یونس قتل معاملے میں ملوث پولس والوں کو ڈسپلینری انکوائری کا سامنا کرنا ہوگا لیکن اب تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اس کے باوجود پولس والوں کو ملازمت پر بحال کردیا گیا جو توہین عدالت ہے نیز ممبئی پولس کمشنر کا فیصلہ غیر آئینی ہے لہذا حصول انصاف کے لیئے جمعیۃ علماء نے توہین عدالت کی پٹیشن کے ساتھ ساتھ ممبئی ہائی کورٹ میں سول رٹ پٹیشن بھی داخل کی تھی جس پر آج سماعت عمل میں آئی۔
گلزار اعظمی نے کہا کہ اے سی پی سچن وازے، کانسٹبل راجندر تیواری، راجا رام نکم اور سنیل دیسائی کو ملازمت پر لے لیا گیا ہے جبکہ سی آئی ڈی نے ان کے خلاف چارج شیٹ داخل کی تھی او ر فاسٹ ٹریک عدالت میں چلنے والے اس مقدمہ میں ابتک صرف ایک گواہ کی گواہی عمل میں آئی ہے ایسے میں ان پولس والوں کی ملازمت پر بحالی سے خواجہ یونس کی فیملی سمیت انصاف پسند عوام کو صدمہ پہنچا ہے۔
عیاں رہے کہ23 دسمبر 2002 کو خواجہ یونس کو 2، دسمبر 2002 کو گھاٹکوپر میں ہونے والے بم دھماکہ کے الزام میں گرفتارکیا تھا جس کے بعد سچن وازے نے دعوی کیا تھا کہ خواجہ یونس پولس تحویل سے اس وقت فرار ہوگیا جب اسے تفتیش کے لیئے اورنگ آبا دلے جایا جارہا تھا حالانکہ سی آئی ڈٖی نے سچن وازے کے دعوے کی نفی کرتے ہوئے معاملے کی تفتیش کے بعد ان پولس والوں کے خلاف خواجہ یونس کو قتل کرنے کا مقدمہ قائم کیا تھا جو زیر سماعت ہے۔
گزشتہ کل ہی فاسٹ ٹریک عدالت نے چاروں ملزمین کے خلاف وارنٹ جاری کیا تھاکیونکہ وہ گذشتہ ایک سال سے عدالت میں حاضر نہیں ہوئے تھے، عدالت کی جانب سے وارنٹ جاری کیئے جانے کا علم ہوتے ہی چاروں پولس والے عدالت میں حاضر ہوئے جس کے بعد ان کے خلاف جاری کیا گیا وارنٹ کینسل کیا گیا۔
واضح رہے کہ پچھلی سماعت پر ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ نے سوال پوچھا تھا کہ چار وں پولس والوں کی ملازمت پر بحالی سے خواجہ یونس کی والدہ کو کیا فرق پڑتا ہے جس کے جواب میں سینئر وکیل مہر دیسائی نے جسٹس اے اے سید اور جسٹس مادھو جامدار کو بتایا تھا کہ ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود ممبئی پولس کمشنر نے چاروں پولس والوں کو بحال کرکے ہائی کورٹ کے حکم کی توہین کی ہے اور قانون کی دھجیاں اڑائی ہیں۔کل یعنی کے 26 فروری کو ممبئی ہائیکورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس کے کے تاتیڑ اور جسٹس ریاض چاگلا کے روبرو سماعت ہوسکتی ہے۔
اس ضمن میں جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے کہا کہ جمعیۃ علماء نے خواجہ یونس کی والد کیجانب سے ممبئی پولس کمشنر کے فیصلہ کو ممبئی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے ا س سے قبل جمعیۃ علماء نے ممبئی پولس کمشنر کے خلاف ممبئی ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی عرضداشت بھی داخل کی تھی جو زیر سماعت ہے۔
گلزار اعظمی نے بتایا کہ خوجہ یونس کی والدہ آسیہ بیگم کی جانب سے داخل کردہ سول رٹ پٹیشن میں پولس کمشنر آف ممبئی پرم ویر سنگھ کے علاوہ چاروں پولس والوں کو بھی فریق بنایاگیا ہے، پٹیشن میں درج ہیکہ ممبئی پولس کمشنر کا چاروں پولس والوں کی معطلی کو ختم کرکے انہیں دوبارہ ملازمت پر بحال کرنے کا فیصلہ غیر قانونی ہے لہذا ہائی کورٹ کو اسے کالعدم قراردینا چاہئے کیونکہ پولس کمشنر کویہ اختیار ہی نہیں ہے۔
واضح رہے کہ ممبئی گھاٹکوپر بم دھماکہ معاملے میں ماخوذ کیئے گئے پربھنی کے ملزم خواجہ یونس (سافٹ وئیر انجینئر)کی پولس حراست میں ہوئی موت کے ذمہ دار پولس والوں کو سی آئی ڈی کی تحقیقات کے بعد ملازمت سے معطل کردیا گیا تھا لیکن 6 / جون2020 کو ان پولس والوں کو ملازمت پر بحال کردیاگیاجس کے خلاف خواجہ یونس کی والدہ کی جانب سے جمعیۃ علماء کے توسط سے ممبئی پولس کمشنر پرم ویر سنگھ اور ہوم ڈپارٹمنٹ کو توہین عدالت کانوٹس بھیجا گیا تھا نوٹس کا جواب پولس کمشنر کی جانب سے موصول نہ ہونے پر ممبئی ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی پٹیشن اور سول رٹ پٹیشن داخل کی گئی تھی جو زیر سماعت ہے۔
گلزار اعظمی نے مزید بتایا کہ 2004 میں ممبئی ہائی کورٹ نے حکم دیا تھاکہ خواجہ یونس قتل معاملے میں ملوث پولس والوں کو ڈسپلینری انکوائری کا سامنا کرنا ہوگا لیکن اب تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اس کے باوجود پولس والوں کو ملازمت پر بحال کردیا گیا جو توہین عدالت ہے نیز ممبئی پولس کمشنر کا فیصلہ غیر آئینی ہے لہذا حصول انصاف کے لیئے جمعیۃ علماء نے توہین عدالت کی پٹیشن کے ساتھ ساتھ ممبئی ہائی کورٹ میں سول رٹ پٹیشن بھی داخل کی تھی جس پر آج سماعت عمل میں آئی۔
گلزار اعظمی نے کہا کہ اے سی پی سچن وازے، کانسٹبل راجندر تیواری، راجا رام نکم اور سنیل دیسائی کو ملازمت پر لے لیا گیا ہے جبکہ سی آئی ڈی نے ان کے خلاف چارج شیٹ داخل کی تھی او ر فاسٹ ٹریک عدالت میں چلنے والے اس مقدمہ میں ابتک صرف ایک گواہ کی گواہی عمل میں آئی ہے ایسے میں ان پولس والوں کی ملازمت پر بحالی سے خواجہ یونس کی فیملی سمیت انصاف پسند عوام کو صدمہ پہنچا ہے۔
عیاں رہے کہ23 دسمبر 2002 کو خواجہ یونس کو 2، دسمبر 2002 کو گھاٹکوپر میں ہونے والے بم دھماکہ کے الزام میں گرفتارکیا تھا جس کے بعد سچن وازے نے دعوی کیا تھا کہ خواجہ یونس پولس تحویل سے اس وقت فرار ہوگیا جب اسے تفتیش کے لیئے اورنگ آبا دلے جایا جارہا تھا حالانکہ سی آئی ڈٖی نے سچن وازے کے دعوے کی نفی کرتے ہوئے معاملے کی تفتیش کے بعد ان پولس والوں کے خلاف خواجہ یونس کو قتل کرنے کا مقدمہ قائم کیا تھا جو زیر سماعت ہے۔
گزشتہ کل ہی فاسٹ ٹریک عدالت نے چاروں ملزمین کے خلاف وارنٹ جاری کیا تھاکیونکہ وہ گذشتہ ایک سال سے عدالت میں حاضر نہیں ہوئے تھے، عدالت کی جانب سے وارنٹ جاری کیئے جانے کا علم ہوتے ہی چاروں پولس والے عدالت میں حاضر ہوئے جس کے بعد ان کے خلاف جاری کیا گیا وارنٹ کینسل کیا گیا۔



کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں