src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-2927126055114474'/> شادی شدہ دوشیزہ کو انتہائی بے دردری سے قتل کرنے کے بعد اسے نذر آتش کردیا گیا!!! - مہاراشٹر نامہ

Breaking

Home Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

جمعہ، 29 جنوری، 2021

شادی شدہ دوشیزہ کو انتہائی بے دردری سے قتل کرنے کے بعد اسے نذر آتش کردیا گیا!!!

شادی شدہ دوشیزہ کو انتہائی  بے دردری سے قتل کرنے کے بعد اسے نذر آتش کردیا گیا!!! 


              
           
             ✍️خیال اثر مالیگانوی ✍️

مدھیہ پردیش کے ایک تاریخی شہر میں جب انتہائی شریف النفس شخص کی روزی تنگ ہوتی گئی اور اسے اپنے اہل خانہ کا پیٹ کاٹنا دو بھر ہو گیا تو اس نے رخت سفر باندھتے ہوئے صنعتی شہر مالیگاؤں کا رخ اختیار کیا. مالیگاؤں آنے کے بعد ایک دور افتادہ محلے میں سکونت پذیر ہونے کے بعد اس شریف اور انسان دوست شخص نے پاور لوم پر مزدوری کرتے ہوئے اپنے اہل خانہ کے لئے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنا شروع کیا. برسوں گزرنے کے بعد جب اس شخص کی بیٹی جوانی کی دہلیز پر پہنچی تو اس نے اس کی شادی بیاہ کا ارادہ کرتے ہوئے انتہائی جانفشانی سے اپنی پسند کے عین مطابق ایک خاندان کا لڑکا پسند کر لیا. اپنی لخت جگر کو باعزت طریقے سے وداع کرنے کا سودا سر میں سمائے اس شخص نے اپنی جمع شدہ پونجی اور دیگر مخیر حضرات کے سامنے دست تعاون کا طبگار ہو کر اپنی آنکھوں کے نور کو بیاہنے کا نہ صرف انتظام کیا بلکہ اپنے گھر سے اس کی ڈولی اٹھا اسے سسرال روانہ کردیا. شادی شدہ زندگی گزارنے کے حیسن خواب سجائے یہ معصوم لڑکی جب اپنی سسرال پہنچی تو چند مہینے گزرتے ہی اسے احساس ہو گیا کہ وہ کسی خوں خوار  شکاری کے جال میں بری طرح پھنس گئی ہے حالانکہ اس لڑکی نے بارہا اپنے والدین سے اپنے شوہر اور اہل خانہ کی شکایتیں کیں لیکن ہر بار والدین نے اپنی ہی بیٹی کو سمجھوتا کرنے کی ترغیب دیتے  ہوئے رشتہ نبھانے پر آمادہ کئے رکھا. لڑکی کے والدین اگرچہ انتہائی مفلس و نادار تھے لیکن محنت اور جفا کشی ان کے خون میں شامل تھی اسی لئے وہ اپنی لڑکی کے سسرال والوں کے جائز و ناجائز مطالبات اپنی بساط بھر کوشش کرکے پورے کرتے آئے تھے. سال بھر کا عرصہ بھی گزرا نہیں تھا کہ انھیں ایک دن اطلاع ملی کہ ان کی جواں سال بیٹی جسے انھوں نے انتہائی تزک و احتشام سے ڈولی میں بیٹھا کر سسرال رخصت کیا تھا آگ کے شعلوں سے گزر کر انتقال کر گئی ہے. انتہائی سراسیمگی کے عالم میں جب والدین اور دیگر افراد جائے وقوع پر پہنچے تو انھیں اپنی نازوں سے پلی بیٹی  کی ادھ جلی نعش ملی. معاملہ چونکہ انتہائی سنگین صورتحال کا حامل تھا اس لئے قریبی پولیس تھانہ میں واقعہ کی رپورٹ درج کی گئی. پولیس نے جب اپنی تفتیش شروع کی تو کئی چونکا دینے والے انکشافات سامنے آئے جس سے پولیس کے ذمہ داران بھی کان کھڑے ہو گئے اور انھوں  نے اسے خودکشی کا واقعہ نہ گردانتے ہوئے  منصوبہ بند سازش کے تحت بہو کو نذر آتش کرنے کا معاملہ درج کیا . اس لڑکی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بھی بے شمار انکشافات سامنے آئے تب پولیس نے شک و شبہ کے اظہار میں اس معصوم لڑکی کے قتل کے الزام میں شوہر سمیت ساس سسر کو گرفتار کرتے ہوئے سختی برتی تو سارا معاملہ طشت ازبام ہو گیا. 
پوسٹ مارٹم کی رپورٹ نے نہ صرف تفتیشی آفیسران کو چونکایا بلکہ لڑکی کے والدین اور دیگر افراد کو بھی حیران کردیا. پولیس کے لئے اولین انکشاف یہ تھا کہ لڑکی ادھ جلی لاش جہاں سے دستیاب ہوئی تھی وہ لکٹریوں سے تعمیر کردہ ایک جھونپڑا نما ایک منزلہ مکان تھا. اوپری منزلے پر لڑکی کی لاش جہاں ملی تھی وہاں نہ تو کسی طرح کا کوئی ایندھن موجود تھا نہ ہی آگ لگنے کے لوازمات موجود تھے جس سے ثابت ہو کہ کے کھانا  بنانے کے دوران آگ بھرک اٹھی ہو  اور اس لڑکی کو اپنی لپیٹ میں لے کر زندہ جلا دیا ہو. دوسرا انکشاف یہ تھا کہ اس معصوم لڑکی کے زندہ جل جانے کا واقعہ لکڑی کے جس پہلے منزلہ پر پیش آیا تھا وہاں پولیس کو لکڑیوں کے جلنے کے معمولی سے بھی آثار نظر نہیں آئے. تیسرا سب سے بڑا انکشاف پوسٹ مارٹم رپورٹ میں چونکانے کا سبب بنا کہ لڑکی کی گردن پر گلا گھونٹے کے نشانات عیاں تھے اور لڑکی کے منہ میں بلکہ انتہائی حلق کے اندر تک بڑی ہی بے دردی سے ایک رومال ٹھونسا ہوا دستیاب ہوا اور یہ رومال اس معصوم لڑکی کے ظالم شوہر کا تھا. یکے بعد دیگرے سامنے آنے والے انکشافات نے تفتیشی آفیسران کو مجبور کیا کہ وہ لڑکی کے شوہر اور دیگر اہل خانہ کو اپنی حراست میں لے کر زور آزمائی کرے اور پھر جب انھیں گرفتار کرکے پولیس نے اپنا زور بتایا تو پھر یہ پولیس تو پولیس ہے جس کے ڈنڈے کا زور مردوں کو بھی بولنے پر مجبور کردیتا ہے. چند نہیں بلکہ بے شمار ڈنڈے کھانے اور اذیتوں کی تاب نہ لاتے ہوئے ان ظالموں نے سارا راز عیاں کردیا. معاملہ چونکہ قتل کا تھا اور کورٹ میں زیر سماعت تھا اس لئے تمام ملزمان کو عدالت کے کٹہروں میں کھڑا کرکے انصاف کا مطالبہ کیا گیا. لڑکی کے غریب والدین ہر سماعت پر امید و بیم  کے چراغ جلائے عدالت میں حاضر ہوتے تھے کہ اب ان کی مظلوم بیٹی کو انصاف مل جائے گا اور خاطی افراد کیفر کردار تک پہنچ جائیں گے. بے شمار مسلوں کی طرح یہ مسئلہ بھی سست رفتار کچھوئے کی طرح زیر سماعت رہا لیکن ایک نہ ایک دن تو ہر مسئلے کا حل متیعن ہے. ہر ظالم کا کیفر کردار تک پہنچنا طے ہے. عدالت میں ظالم شوہر نے اپنے والدین کو سزائے عمر قید یا پھانسی سے بچانے کے لئے سارا الزام اپنے سر لیتے ہوئے والدین کو صاف بچا لیا. کورٹ میں اس ظالم شوہر نے اعتراف کیا کہ میں اپنی بیوی کو جان سے مارنا نہیں چاہتا تھا لیکن اسے خوفزدہ کرنے کے لئے میں اس کی گردن دبائی تو مجھے احساس نہیں ہوا اور اس کی جان چلی گئی. جب میری بہن نے مجھے جھنجھوڑتے ہوئے یہ کہا کہ بھیا یہ تو مر گئی ہے اب ہمیں یہ خوف ہوا کہ پولیس یقیناً ہم سب کو جیل کی کال کوٹھری یا پھانسی پر لٹکا دے گی تب ہم نے پروگرام کے تحت اپنے مکان کے  نچلے حصے میں راکیل ڈال کر اسے آگ لگا دی اور جب وہ پوری طرح نذر آتش ہو گئی تو اسے اٹھا کر اوپری منزلے پر پہنچا کر شور و غل  مچانا شروع کردیا. محلے والوں نے لڑکی کے والدین کو بھی اس حادثہ کی اطلاع دی. وہ آئے اور انھوں نے ماجرا سننے کے بعد پہلے خود تفتیش کی جب انھیں شک ہوا تو معاملہ کی سنگینی دیکھنے کے بعد پولیس میں شکایت درج کرائی. برسوں معاملہ کورٹ میں معلق رہا لیکن ایک دن ایسا بھی آیا کہ کورٹ نے لڑکے کو عمر قید کی سزا سنا دی. والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کی باعث والدین برسوں کوشش کرتے رہے کہ کسی بھی طرح ان کا جواں سال فرزند جیل کی سلاخوں سے باہر آ جائے. قاتل شوہر کے والدین نے مقامی کورٹ سے شیشن کورٹ اور ہائی کورٹ کا بھی رخ کیا. برسوں تعطل کے بعد یہ بھی ہوا کہ اپنی معصوم اور بے گناہ دلہن کا یہ قاتل شوہر رہا بھی ہو گیا اور دوسری شادی کرنے کے بعد اپنی دوسری بیوی کو بھی اپنے اہل خانہ سمیت ظلم کا شکار بناتے ہوئے اس کی زندگی بھی اجیرن کر رکھی ہے. ان ظالموں کو ذرا بھی احساس نہیں ہوتا ہے کہ کسی کی نازوں پلی بیٹی پر ظلم کے پہاڑ توڑنا قانون و عدلیہ کے ساتھ ساتھ احکام خدا وندی کے بھی بر خلاف ہے. انھیں یہ بھی احساس نہیں کہ اگر ایسا ہی کوئی سانحہ ان کی اپنی بیٹی کے ساتھ پیش آیا تو ان کے دل پر کیا گزرے گی. کسی کی چہتی بیٹی کو جان سے ہلکان کرنا اور تڑپا تڑپا کر جان سے مار دینا کتنا ظالمانہ فعل ہے. آج بھلے ہی یہ ظالم خانوادہ اپنی زندگی میں مست ہے لیکن انھیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ دنیا دارالعمل ہے. یہاں جو جیسا کرے گا ویسا ہی بھرے گا. آج وہ بھلے ہی قانون و عدلیہ کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے خود کو بری الذمہ ثابت کردیں لیکن ان ظالموں کو یاد رکھنا چاہیے کہ دنیاوی عدالتوّں سے پرے ایک عظیم عدالت میدان حشر میں منعقد ہوگی اور اس عدالت سے کوئی بھی ظالم بچ نہیں سکتا نہ ہی یہاں کوئی تاویل انھیں محفوظ  رکھ سکتی ہے.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Bottom Ad

Responsive Ads Here

Pages